امانت

( اَمانَت )
{ اَما + نَت }
( عربی )

تفصیلات


امن  اَمانَت

عربی زبان سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں بطور اسم، متعلق فعل اور صفت اسعتمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٧٠٠ء کو "من لگنٌ میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - مامون و محفوظ۔
 خدایا سلامت رکھ اس شاہ کوں پریاں تے امانت رکھ اس شاہ کوں      ( ١٦٠٩ء، قطب مشتری، ٦١ )
اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : اَمانَتیں [اَما + نَتیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : اَمانَتوں [اَما + نَتوں (و مجہول)]
١ - وہ چیز (نقد، جنس یا بات) جو کسی کو (جوں کی توں واپس لینے یا محفوظ رکھنے کے لیے) سونپی جائے کسی کی حفاظت میں دی ہوئی چیز۔
 فکر ہے ان کی امانت میں کہیں داغ آ نہ جائے اب تو کچھ ان سے بھی دل کا داغ پیارا ہو گیا      ( ١٩٤٠ء، بیخود موہانی، کلیات، ٢٤ )
٢ - ودیعت الٰہی، خداے تعالٰی کی بخشی ہوئی دولت ایمان وغیرہ (جسے دنیا میں صحیح سالم اس کی بارگاہ میں لے جانے کی پابندی ہے)۔
"ہم نے یہ امانت آسمانوں پر زمین پر اور پہاڑوں پر پیش کی۔"      ( ١٩٣٢ء، سیرۃ النبیۖ، ٧٦٥:٤ )
٣ - دیانت داری، ایمانداری۔
"اپنی شان اور امانت کا سکہ دوست دشمن سب کے دلوں پر بٹھا دیا۔"      ( ١٩٣٢ء، روح تہذیب، ٢٧ )
٤ - سلامتی، حفاظت، امان۔
 امانت چاہنا پر لطف ہے یاران دیگر سے دل اپنا جمع کر دور قمر کے شور اور شر سے      ( ١٨١٠ء، میر، کلیات، ١٣٤٧ )
٥ - [ بندوبست ]  پیمائش کا عہدہ یا کام، امین کا منصب۔
"امانت میں جو محنت ہے وہ منصرمی میں کہاں۔"      ( ١٨٩٢ء، امیر اللغات، ٢٣٥:٢ )
متعلق فعل
١ - بطور امانت، حق دار کو پنچانے کے لیے محفوظ۔
 وہ جان وفا نہ جانے کس حال میں ہے لے چل مجھے لکھنؤ امانت لے چل      ( ١٩٣٣ء، ترانہ یگانہ، ٧٧ )
  • سَپُرْدَگی
  • دِیانَت
  • سَچائی