تحویل

( تَحْوِیل )
{ تَح + وِیل }
( عربی )

تفصیلات


حول  تَحْوِیل

عربی زبان سے اسم مشتق ہے ثلاثی مزید فیہ کے باب تفعیل سے مصدر اور اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٧٣٩ء کو 'کلیات سراج" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم مجرد ( مؤنث - واحد )
جمع   : تَحْوِیلات [تَح + وی + لات]
١ - تغیر، تبدیل، (حال یا مکان سے منتقلی، پھرنا، پھیرنا، بدلنے کا عمل)۔
 مئی کی جون میں تحویل ہوئی جاتی ہے جسم کیا روح بھی تحلیل ہوئی جاتی ہے      ( ١٩٣١ء، بہارستان، ٤٩٨ )
٢ - [ نجوم و ہیئت ]  سورج چاند یا کسی ستارے کا ایک برج سے دوسرے برج میں آنا، کسی ستارے کا کسی برج میں داخل ہونے کا عمل۔
 جبکہ برج قوس میں تحویل ہو تیر فلک تجھ صفائے شست کی تعریف لکھتا ہے وہاں      ( ١٨٠٦ء، ایمان، ایمان سخن، ٤٣ )
٣ - سپردگی، حوالگی، امانت سپرد کرنا۔
'ریل سے اترا، سامان اسٹیشن ماسٹر کی تحویل میں دیا۔"      ( ١٩٤٧ء، فرحت، مضامین، ٢٦:٧ )
٤ - سرمایہ، خزانہ، جمع پونجی۔
'ماہواری قرآن خواں کی تنخواہ بھی چچا کی تحویل سے جاتی تھی۔"      ( ١٩٣١ء، رسوا، اختری بیگم، ٨٦ )
٥ - [ حساب ]  ایک قیمت کی رقم کو ادنٰی یا اعلٰی قیمت کی رقم میں تبدیل کرنا، ایک عدد یا اعداد مختلف النوع کو ایک قسم کا عدد بنانا۔
'بڑے درجے کے عددوں کو چھوٹے درجے کی اکائیوں میں لائیں یا بالعکس اس کے چھوٹے درجے کے عددوں کو بڑے درجوں کی اکائیوں میں بیان کریں اسے تحویل کہتے ہیں مثلاً ایک روپے کی وہی قیمت ہے جو ١٩٢ پائی کی قیمت ہے۔"      ( ١٨٥٦ء، علم حساب، ١٢٧ )
  • altering
  • changing
  • transmuting;  change
  • transfer;  renovation;  return;  (in Astron.) passing of the sun
  • moon
  • or a planet from one sign to another;  care
  • trust
  • charge;  a deposit
  • revenue credit;  cash
  • funds
  • capital;  a treasury