اسم معرفہ ( مذکر - واحد )
١ - معبود، خدائے تعالٰی کا اسم ذات، اسماء صفاتی کے مقابل۔
"آپ کے جانے کے بعد سے گھر بھائیں بھائیں کر رہا ہے اللہ اس دم کو رکھے۔"
( ١٩٢٠ء، انشاے بشیر، ١٥٦ )
٢ - استعجاب کے موقع پر، مترادف، حیرت ہے، تعجب ہے، بڑی عجیب بات ہے۔
کیوں گر پڑی یہ، خیر تو ہے کیا ہوا اسے اللہ! میرے ہونٹ بھی زہریلے ہو گئے
( ١٩٥٨ء، تارپیراہن، ٢٤٧ )
٣ - شکوے شکایت یا دوئی کی جگہ۔
"اللہ اختر تم اتنے کٹھور بھی ہو سکتے ہو آخر کسی لیے۔"
( ١٩٥١ء، زیر لب، ٢١٩ )
٤ - کمال اضطراب اور یاس کے موقع پر۔
تسکین مرگ بھول گیا اضطراب میں اللہ پڑ گیا مرا دل کس عذاب میں
( ١٩١٩ء، متع درد، ثاقب کانپوری، ١٠٣ )
٥ - کسی وصف میں اظہار مبالغہ کے لیے۔
تا عرش جلال آہ کوئی پہنچی ہے شاید اللہ دماغ دل نالاں نہیں ملتا
( ١٩٠٣ء، نظم نگاریں، ٢٢ )
٦ - دعا وغیرہ کے موقع پر یااللہ، الٰہی، اے میرے مالک۔
بیٹھے بٹھائے عشق کا آزار ہو گیا اللہ کس بلا میں گرفتار ہو گیا
( ١٩١٩ء، درشہوار بیخود، ١٠ )
٧ - تمنا کے موقع پر، مترادف: خدا کرے۔
جنون عشق نے سوداے شوق نے کھویا دماغ سے کہیں اللہ یہ خلل جاتے
( ١٨٩٥ء، دیوان زکی، ١٦٩ )
٨ - نہ جانے، خدا معلوم، اللہ ہی کو معلوم ہے۔
اللہ کدھر ہے در کا شانۂ ساقی مدہوش ہے وارفتۂ پیمانۂ ساقی
( ١٩١٢ء، شمیم، ریاض، شمیم، ٢٣:٢ )
٩ - اللہ، خدا کے لیے، خدارا (خوشامد، مفت، سماجت کے موقع پر)۔
"اللہ خرم بھائی آپ ڈرائیے نہیں۔"
( ١٩٦١ء، ہالہ، ٥٤ )