اللہ

( اَللہ )
{ اَل + لَہ }
( عربی )

تفصیلات


عربی زبان میں اسم 'الہ' کے شروع میں 'ال' بطور حرف تخصیص لگانے سے 'اللہ' بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٥٠٠ء کو "معراج العاشقین" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم معرفہ ( مذکر - واحد )
١ - معبود، خدائے تعالٰی کا اسم ذات، اسماء صفاتی کے مقابل۔
"آپ کے جانے کے بعد سے گھر بھائیں بھائیں کر رہا ہے اللہ اس دم کو رکھے۔"      ( ١٩٢٠ء، انشاے بشیر، ١٥٦ )
٢ - استعجاب کے موقع پر، مترادف، حیرت ہے، تعجب ہے، بڑی عجیب بات ہے۔
 کیوں گر پڑی یہ، خیر تو ہے کیا ہوا اسے اللہ! میرے ہونٹ بھی زہریلے ہو گئے      ( ١٩٥٨ء، تارپیراہن، ٢٤٧ )
٣ - شکوے شکایت یا دوئی کی جگہ۔
"اللہ اختر تم اتنے کٹھور بھی ہو سکتے ہو آخر کسی لیے۔"      ( ١٩٥١ء، زیر لب، ٢١٩ )
٤ - کمال اضطراب اور یاس کے موقع پر۔
 تسکین مرگ بھول گیا اضطراب میں اللہ پڑ گیا مرا دل کس عذاب میں      ( ١٩١٩ء، متع درد، ثاقب کانپوری، ١٠٣ )
٥ - کسی وصف میں اظہار مبالغہ کے لیے۔
 تا عرش جلال آہ کوئی پہنچی ہے شاید اللہ دماغ دل نالاں نہیں ملتا      ( ١٩٠٣ء، نظم نگاریں، ٢٢ )
٦ - دعا وغیرہ کے موقع پر یااللہ، الٰہی، اے میرے مالک۔
 بیٹھے بٹھائے عشق کا آزار ہو گیا اللہ کس بلا میں گرفتار ہو گیا    ( ١٩١٩ء، درشہوار بیخود، ١٠ )
٧ - تمنا کے موقع پر، مترادف: خدا کرے۔
 جنون عشق نے سوداے شوق نے کھویا دماغ سے کہیں اللہ یہ خلل جاتے    ( ١٨٩٥ء، دیوان زکی، ١٦٩ )
٨ - نہ جانے، خدا معلوم، اللہ ہی کو معلوم ہے۔
 اللہ کدھر ہے در کا شانۂ ساقی مدہوش ہے وارفتۂ پیمانۂ ساقی      ( ١٩١٢ء، شمیم، ریاض، شمیم، ٢٣:٢ )
٩ - اللہ، خدا کے لیے، خدارا (خوشامد، مفت، سماجت کے موقع پر)۔
"اللہ خرم بھائی آپ ڈرائیے نہیں۔"      ( ١٩٦١ء، ہالہ، ٥٤ )
  • God
  • the Supreme Being