دھڑکا

( دَھڑْکا )
{ دَھڑ + کا }
( پراکرت )

تفصیلات


دڈھک  دَھڑْکا

پراکرت الاصل لفظ 'دڈھک' سے ماخوذ مصدر 'دھڑکنا' سے حاصل مصدر 'دھڑک' کے ساتھ 'ا' بطور لاحقہ تکبیر بڑھانے سے 'دھڑکا' بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے اور ١٦٦٥ء کو "سیف الملوک و بدیع الجمال" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : دَھڑْکے [دَھڑْکے]
١ - دھڑکن، تڑپ۔
 دل کے دھڑکے سے مجھے نیند نہ آئی شبِ وصل سوتے سوتے جو کہاں اُس نے کہ گھر جاؤں گا      ( ١٩٢٤ء، مصحفی، دیوان (انتخاب رام پور)، ٥٤ )
٢ - اختلاجِ قلب، ہولِ دل، خفقان۔
 صفی دھڑکے کی بیماری سے ہوں مجبور اسیر بھی رہیں گی یاد چیتا پور کو تُک بندیاں میری      ( ١٩٤٥ء، فردوسِ صفی، ١٥١ )
٣ - خوف، اندیشہ
"جب میں نے کسی جرم کا ارتکاب نہیں کیا تو یہ دھڑکا بے معنی ہے۔"      ( ١٩٨٠ء، دیوار کے پیچھے، ١٠ )
٤ - دھماکے کی زور کی آواز، دھماکا، گرج، کڑک؛ دھکا، دھچکا۔ (ماخوذ: جامع اللغات؛ پلیٹس)۔