دھوکا

( دھوکا )
{ دھو (و مجہول) + کا }
( سنسکرت )

تفصیلات


دھورتک  دھوکا

سنسکرت الاصل لفظ 'دھورتک' سے ماخوذ 'دھوکا' اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے اور سب سے پہلے ١٨٠٣ء کو "گنج خوبی" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : دھوکے [دھو (و مجہول) + کے]
جمع   : دھوکے [دھو (و مجہول) + کے]
جمع غیر ندائی   : دھوکوں [دھو (و مجہول) + کوں (و مجہول)]
١ - حقیقت حال (مافی الضمیر) سے بے خبر رکھ کر دوسرے کو غلط راستے پر ڈالنے کا عمل، مکَر، فریب، دَغا۔
"اقتصادی امتحصال سے آزادی . کے بغیر سیای آزادی صرف دھوکہ اور سراب ہے۔"      ( ١٩٨٢ء، آتشِ چنار، ٩٢٣ )
٢ - غلط فہمی، مغالطہ، بھول چوک، فریبِ نظر۔
 جب سے دیکھا ترے لطفِ مسلسل کا فریب ہر نوازش سے لرزتا ہوں کہ دھوکا ہو گا    ( ١٩٧٩ء، دریا آخر دریا ہے، ١٩٧ )
٣ - بے اصل، بے حقیقت چیز جس کا وجود نہ ہو۔
 مرا وجود حقیقت مرا عدم دھوکا فنا کی شکل میں سر چشمۂ بقا ہوں میں    ( ١٩٤٧ء، نوائے دل، ١٥٦ )
٤ - ریگِ رواں جس پر پانی کا دھوکا ہوتا ہے، سراب۔ (مہذب اللغات)
٥ - [ چڑیماری ]  چڑیمار جال کو پھیلا کر اس پر مٹی ڈال کے چُھپا دیتے ہیں پھر اس پر دانہ پھیلا کر ڈال دیتے ہیں جب بہت سے پرند آکر کھانے لگتے ہیں تو جال کو کھنیچ لیتے ہیں اور ایک دم سے سب پرند اس میں پھنس جاتے ہیں، اس کو دھوکا کہتے ہیں۔
٦ - پرندوں کو ڈرانے کا پتلا؛ ڈر، گھبراہٹ، مایوسی، ناامیدی؛ کوئی چیز جس سے دھوکا ہو، کوئی چیز جو صاف نہ نظر آئے۔"