مات

( مات )
{ مات }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم ہے۔ اردو میں بطور اسم اور صفت استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٦١١ء کو "کلیات قلی قطب شاہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - ہارا ہوا، شکست کھایا ہوا، بازی ہارا ہو۔
"مینہ اس قدر برسا کہ برسات کی بارش کو مات کر دیا۔"      ( ١٨٤٥ء، حکایتِ سخن سنج، ٤٩ )
٢ - [ مجازا ]  بے رونق، ہیچ، بے رنگ، ماند۔
"ایک نوجوان لڑکی نکلی . جس کے چہرے کے آگے سورج مات تھا۔"      ( ١٩٤٠ء، الف لیلہ و لیلہ، ٦:١ )
٣ - عاجز، تنگ۔
 مقید میں مقید ہے تیری ذات نہیں ہوتا کسی خانہ میں تو مات      ( ١٩١١ء، کلیات اسمعیل، ٨ )
٤ - حیران، ششدر نیز الجھا ہوا، پریشان۔ (پلیٹس)
اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : ماتیں [ما + تیں (یائے مجہول)]
جمع غیر ندائی   : ماتوں [ما + توں (و مجہول)]
١ - مر گیا، موت؛ (مجازاً) شکست، ہار، بازی کی ہار۔
"یہ تمہاری مات اور میری جیت ہے امیلیا۔"      ( ١٩٩١ء، قومی زبان، کراچی، دسمبر، ٧٤ )
٢ - شطرنج میں کشت (شہ) کے بعد بادشاہ کو اگر کوئی بچنے کی جگہ نہیں ملتی تو اس کو مات کہتے ہیں۔
 الٹنے کو ہے مدّعی کی بساط بس اب دوسری چال میں مات ہے      ( ١٩٤٢ء، سنگ و خشت، ٣٩٦ )