شکست

( شِکَسْت )
{ شِکَسْت }
( فارسی )

تفصیلات


شکستن  شِکَسْت

فارسی میں مصدر 'شکستن' سے حاصل مصدر 'شکست' اردو میں اصل ساخت اور مفہوم کے ساتھ داخل ہوا اور بطور اسم نیز گاہے بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٦٣٥ء کو "سب رس" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - شکستہ، ٹوٹی پھوٹی، خستہ حال۔
 دیواریں بھی شکست تھیں در بھی جھکے ہوئے جانیں بھی غم سے تنگ تھیں دل بھی رکے ہوئے      ( ١٨٧٤ء، انیس، مراثی، ٤٦٥:١ )
اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
جمع   : شِکَسْتیں [شِکَس + تیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : شِکَسْتوں [شِکَس + توں (و مجہول)]
١ - ٹوٹ پھوٹ، پھٹاؤ، شکستگی۔
 ٹوٹا تو ہوں مگر ابھی بکھرا نہیں فراز میرے بدن پہ جیسے شکستوں کا جال ہو      ( ١٩٧٨ء، جاناں جاناں، ٨٠ )
٢ - نقصان، زیاں، مضراثر۔
"عام مجلسوں اور انجمنوں کی شکست کے جو اسباب عموماً بیان کیے جاتے ہیں . یہاں کوئی سبب موجود نہ تھا۔"      ( ١٩١٥ء، فلسفہ اجتماع (الف) )
٣ - ہزیمت، پسپائی، فتح کی ضد۔
"مخالفین کی شکست اور ہزیمت میں صلحاء کو مزید ایمان اور تسکین کے حصول میں عجیب و غریب مافوقِ فہم نشانات ظہور پذیر ہوتے ہیں۔"      ( ١٩٢٣ء، سیرۃ النبیۖ، ٢٠٢:٣ )
٤ - خطِ شکستہ، خاص طرز تحریر میں مختلف مقررہ الفاظ کی شکل میں لکھا جاتا ہے۔
"مسودہ نویسی اور شکست پڑھنا۔"      ( ١٨٨٦ء، دستورالعمل مدرسین دیہاتی، ٢٦ )
  • زِک
  • پَسْپائی
  • پُھوٹ
  • گھاٹا
  • broken;  odd
  • uneven
  • unpaired