سیال

( سَیّال )
{ سَیْ + یال }
( عربی )

تفصیلات


سیل  سَیّال

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ عربی سے بعینہ اُردو میں داخل ہوا اور بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ اُردو میں سب سے پہلے ١٦١١ء کو "کلیاتِ قلی قطب شاہ" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - بہنے والا، رقیق، پتلا۔
"ٹھوس بھی زرد ہے اور سیال بھی زرد ہے۔"      ( ١٩٨٧ء، حصار، ١١٨ )
٢ - جاری رہنے والا، رواں رہنے والا۔
"حکما کہتے ہیں کہ زمانہ سیال ہے کسی آن اس کو سکون نہیں۔"      ( ١٨٩٨ء، اعظم گڑھ، ستمبر،٦٨ )
٣ - وہ لوگ جن کا درجہ بدلتا رہے، نچلے طبقے کے لوگ۔
"تیسرا درجہ آتا ہے جن میں کمین، کم اصل یا غریب سیال کا، یہ وہ طبقہ ہے جس میں ڈوم مرہٹہ یا وہ لوگ شامل ہیں جوکہ پُشتینی غلام تھے۔"      ( ١٨٧٦ء، بلوچستان،٨٤ )
٤ - [ کنایتہ ]  دِگرگوں، بے ترتیب، نامکمل
"آزادی کے اتنے برس بعد بھی ہم خوداعتمادی کی نعمت سے بہت حد تک محروم ہیں ورنہ اتنے اہم مسائل کو ہمیشہ سیال حالت میں کیوں رکھتے۔"      ( ١٩٨٧ء، قومی زبان، کراچی، نومبر ٢٨ )
٥ - [ مجازا ]  ناپختہ، ڈانواں ڈول، غیرمستحکم۔
"جانکی کی شخصیت اولنکا کی طرح بالک نرم قلفی انفحلالی اور سیال شخصیت نہیں تھی۔"      ( ١٩٧٣ء، ممتاز شیریں، منٹو، نوری نہ ناری، ٩٤ )
٦ - [ کنایتہ ]  رواں دواں، تیزرو۔
"ہر لفظ پر غور کرتا رہا مناسب ہے نامناسب، عبارت کے سیال کو دیکھتا رہا۔"      ( ١٩٤٩ء، میلہ گھوفی، ١١٦ )
٧ - لچک دار، متحرک رہنے والا۔
"اس زمانے کی پراکرتیں سیال حالت میں تھیں اور اضطراب اور انتشار کے تمام اثر قبول رہی تھیں۔"      ( ١٩٤٨ء، مقدمۂ ہندوستانی لسانیات کا خاکہ (ترجمہ) ٣٧ )
٨ - پگھلنے کے قابل۔
"سیال کی تعریف یہ ہے کہ وہ سہل الانتقاش ہو۔"      ( ١٩٠٠ء، غزلی طبیعیات کی ابجد، ٢٦ )
  • Flowaing rapidly like a torrent
  • rapid