خوابیدہ

( خوابِیدَہ )
{ خا (و معدولہ) + بی + دَہ }
( فارسی )

تفصیلات


خوابیدن  خوابِیدَہ

فارسی زبان میں مصدر 'خوابیدن' سے مشتق اسم صیغۂ حالیہ تمام 'خوابیدہ' اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ ١٨١٦ء کو "دیوان ناسخ" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - سویا ہوا۔
"بستر ناز پر کسی خوابیدہ حسینہ کی طرح پڑی ہوئی نظر آئی۔"      ( ١٩٧٥ء، بدلتا ہے رنگ آسمان، ١٣ )
٢ - بے حرکت، پرسکون، خاموش۔
 موجوں نے کوئی کروٹ بدلی خوابیدہ کنارے جاگ اٹھے دریا کے اندھیرے سینے میں سوتے ہوئے دھارے جاگ اٹھے    ( ١٩٨٢ء، تارگربیاں، ٦٧ )
٣ - بے حس، سن۔
 شور محشر ہوا گر نالۂ زنجیر کی جا پائے خوابیدہ ہمارا کبھی بیدار نہ ہو    ( ١٨١٦ء، دیوان ناسخ، ٧٦:١ )
٤ - چھپا ہوا، پوشیدہ۔
"اس کی خوابیدہ صلاحتیں یک لخت بیدار ہوگئیں۔"      ( ١٩٧٤ء، 'پیمان'، کراچی، ١٨ فروری، ٤ )
٥ - (سبزہ وغیرہ) جھکا ہوا، سرنگوں، پژمردہ۔
 دامن لارنس میں ہر سمت وہ خوابیدہ پھول ذرے ذرے کو چمن زار جناں سمجھا تھا میں      ( ١٩٤٦ء، اختر ستان، ١٣٠ )