فرعون

( فِرْعَون )
{ فِر + عَون (و لین) }
( عربی )

تفصیلات


عربی زبان سے دخیل اسم ہے جو اردو میں اپنے اصل معنی اور ساخت کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے تحریراً سب سے پہلے ١٥٦٤ء کو "دیوان حسن شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ
جمع   : فَراعِین [فَرا + عِین]
جمع غیر ندائی   : فِرْعَونوں [فِرْ + عَو (و لین) + نوں (و مجہول)]
١ - قدیم زمانے میں مصر کے بادشاہوں کا لقب۔
"ہزاروں برس پہلے جب مصر کے حکمران جو فرعون کہلاتے تھے جب مر جاتے تو انہیں قبر کھو کر دفنایا نہ جاتا تھا۔"      ( ١٩٨٥ء، طوبٰی، ٤٣٧ )
٢ - ولید ابن مصعب کا لقب جو حضرت موسٰی کے زمانے میں مصر کا بادشاہ تھا اس نے خدائی کا دعویٰ کیا تھا حضرت موسٰی اس کاف کی ہدایت کے لیے نشانیاں اور معجزے دے کر بھیجے گئے لیکن وہ راست پر نہ آیا آخر کار قہر و غضب سے اپنے لشکر کے ساتھ دریائے نیل میں غرق ہو گیا۔
"آسیہ فرعون کی بیوی تھی لیکن تھی اللہ والی اسی نے حضرت موسٰی کو پالا۔"      ( ١٩٨٤ء، طوبٰی، ٥٢١ )
٣ - [ مجازا ]  متکبر، مغرور، گھمنڈی، خودبین۔
"عوامی لیگ جو ایک ماہ پہلے فرعون بنی ہوئی تھی فوجی نقل و حمل دیکھ کر سوچ میں پڑ گئی۔"      ( ١٩٧٧ء، میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا، ٤٨ )
٤ - [ مجازا ]  ظالم، جابر، سرکش، جفا کار، ستم گار، باغی، برگشتہ۔
"عہد حاضر کے اس فرعون کی لاش کو بھی دوا مل کر اس کے پرانے ساتھی اور بڑے انقلابی لیڈر کی ممی کے ساتھ رکھ دیا گیا جو ١٩٢٤ء میں مرا تھا۔"      ( ١٩٨٤ء، طوبٰی، ٤٣٧ )
٥ - نہنگ، مگرمچھ، گھڑیال، مگر۔ (فرہنگِ آصفیہ؛ نوراللغات)
  • haughtiness
  • arrogance