سرکش

( سَرْکَش )
{ سَر + کَش }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'سر' کے ساتھ 'کشیدن' مصدر سے مشتق صیغہ امر 'کش' لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً ١٦٠٩ء سے "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
جمع   : سَرْکُشاں [سَر + کُشاں]
جمع غیر ندائی   : سَرْکَشوں [سَر + کشوں (و مجہول)]
١ - باغی، نافرمان، حکم عدولی کرنے والا؛ مغرور۔
"کہنے لگے، لڑکا بڑا ضدی اور سرکش ہے، پڑھنے لکھنے کا نام نہیں لیتا۔"    ( ١٩٨٧ء، شہاب نامہ، ١٢٥ )
٢ - منہ زور۔
"صحافت کے سرکش گھوڑے کو قابو میں رکھنے کے لیے دہری عنان کی ضرورت ہے۔"    ( ١٩٨٥ء، مولانا ظفر علی خان بحیثیت صحافی، ١١ )
٣ - [ مجازا ]  اونچا، بلند۔
 کشتی کو اچھالےکئے سرکش دھارے ساحل پہ نگاہ کی نہ ہمت ہارے      ( ١٩٨٠ء، فکر جمیل، ٢٤١ )