ایجاب

( اِیجاب )
{ اِی + جاب }
( عربی )

تفصیلات


جوب  اِیجاب

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں بطور اسم ہی استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٨٣٨ءکو "گلزار نسیم" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - قبولیت، قبول کرنا، اختیار کرنا۔
"بعد چند روز کے بی بی ولایتی سے . بعد ایجاب مذہب عیسائی شادی ہوئی۔"      ( ١٨٩٦ء، قیصر التواریخ، ١٨٥:٢ )
٢ - سوال کا جواب باصواب ملتا، قبول کیا جانا (دعا وغیرہ کے لیے)۔
 زمیں سے یوں عرش بریں وہ اڑکے گیا کہ جیسے منزل ایجاب پر نبی کی دعا      ( ١٩١٣ء، شمیم، ریاض شمیم، ٦٥:٥ )
٣ - اثبات ہونا، نہ ہونے کی نفی کی ضد۔
"ان میں نہ ایجاب و سلب والے تقابل کا امکان ہے اور نہ عدم و ملکہ کے تقابل کا۔"      ( ١٩٤٠ء، اسفار اربعہ، ٢، ١٢٩٣:١ )
٤ - [ فقہ ] مقررہ طریقے کے مطابق عورت کا مرد سے خود یا بذریعہ وکیل اقرار زوجیت۔
"اب رہا حکم شرعی اس کے تعمیل نکاح کے وقت کیا ایجاب و قبول ہو جاتی ہے۔"    ( ١٩٣٦ء، راشدالخیری، نالۂ زار، ٣٩ )
٥ - تجارت یا بیع کے موقع پر بیچنے والے فریق کا مقرر طریقے سے اقرار (اس کے بالمقابل خریدنے والے فریق کا اقرار "قبول" کہلاتا ہے۔
"اگر بائع ایجاب کے بعد دوسرے آدمی سے اپنی کسی حاجت میں کلام کرے گا تو ایجاب باطل ہو گا۔"    ( ١٨٦٧ء، نورالہدایہ (ترجمہ)، ٣:٣ )
٦ - [ منطق ]  وہ اثباتی نسبت جو قضیے میں موضوع و محمول (مبتدا و خبر) کے درمیان ہوتی ہے۔
"شکل اول کے انتاج کے لیے ایجاب صغریٰ اور کلیت کبریٰ شرط ہے۔"      ( ١٨٩٢ء، لیکچروں کا مجموعہ، نذیر، ٢٧٧:١ )
٧ - وجوب، واجب ہونا۔
"یہی ایجاب عدل اور یہ تحریم ظلم ہے۔"      ( ١٨٥١ء، ترجمۂ عجائب القصص، ٢٤٩:٢ )