قبول

( قُبُول )
{ قُبُول }
( عربی )

تفصیلات


قبل  قُبُول

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ عربی سے اردو میں معنی و ساخت کے اعتبار سے من و عن داخل ہوا اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ١٦٣٥ء کو "سب رس" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر )
١ - اقرار، تسلیم، منظور۔
"اپنی تہذیبی اوضاع کے معیار پر رکھ کر رد یا قبول کر سکتا ہے۔"      ( ١٩٨٥ء، ترجمہ: روایت اور فن، ٦٧ )
٢ - قبولیت، اجابت (دُعا وغیرہ کی)۔
 کہاں کی فکر اجابت کہاں کا ذکر قبول مصیبتوں میں کچھ اندازۂ دُعا نہ رہا      ( ١٩٤ء، نوائے دِل، ٦١ )
٣ - مقبولیت، پسند کرنا۔
"چونکہ عوام باطبع اس غذا کے خواہاں ہیں بغیر کسی دقت کے ان کو قبول عام بھی حاصل ہو گیا۔"      ( ١٩١٣ء، مضامینِ ابوالکلام آزاد، ٦٦ )
٤ - رضامندی، ماننا۔
"جس زبان میں "ایجاب" ہوا ہو گا اسی زبان میں قبول بھی ہو گیا ہو گا۔"      ( ١٩٢٦ء، مضامین شرر، ١، ٤٥٠:٢ )
٥ - لینا؛ اخذ کرنا۔
 عالم نے یہاں قبول و رد کو جانا دیکھا دنیا کو نیک و بد کو جانا      ( ١٩٢١ء، کلیاتِ اکبر، ٤٠١:٣ )
٦ - علم نجوم کی ایک اصطلاح۔
 قبول قوت کیواں ہے ہشتم! نہ ہو صحبت سے میری رنج کش تم      ( ١٨٥١ء، کلیاتِ مومن، ٣٨٤ )
  • تَسْلِیم
  • accepting;  consent
  • assent;  concurrence;  approbation;  recognition
  • sanction;  favourable reception;  concession;  acknowledgement
  • confusion
  • avowal