متعلق فعل
١ - فقط، محض، صرف۔
"جناب شیخ عبداللہ مازند رانی جناب اخوند کےساتھی ہیں، اور بس۔"
( ١٩١٢ء، روز نامچۂ سیاحت، ٦١ )
٢ - چپ (رہو) خاموش (ہو جاؤ)، ختم کرو، ٹھہرو، اور نہیں، اب نہیں۔
سو بار دے کے جام و خم ممنوں ساقی نے کیا اس کا تقاضا تھا کہ پی میری گزارش تھی کہ بس
( ١٩٣٢ء، اعجاز نوح، ٨٥ )
٣ - الحاصل، انجام کار، القصہ، الغرض، غرضکہ۔
تلوار بھی ہے وہ بھی ہیں میں بھی ہوں قضا بھی قسمت میں جو ہونا ہے وہ ہو جائے گا بس آج
( ١٩٤٧ء، شاد، میخانہ الہام، ١٢٢ )
٤ - فوراً، اسی وقت، بغیر تاخیر، بلا تامل۔
گھوڑے سے بس ملا دیا گھوڑا بصد جلال اتنے بڑھے کہ لڑ گئی اس کے سپر سے ڈھال
( ١٨٧٢ء، انیس، مراثی، ١٠٤:٢ )
٥ - خبردار، سنا نہیں، سنو، دیکھو، سن رکھو۔
ہاتھ میں نے جو پڑھایا تو کہا بس بہت پاؤں نہ پھیلائیے گا
( ١٩٠٠ء، امیر (نوراللغات)، ٦٣٢:١ )
٦ - سب، تمام، کل۔
جتنی قومیں ہیں ہنر ہی سے ہیں وہ مالا مال جتنے نوکر ہیں وہ چھوٹے کہ ہوئے بس کنگال
( ١٨٩٦ء، تجلیات عشق، اکبر، ٣٨٩ )
٧ - یکایک، اچانک۔
یہ بیخود ہے کہ بس اٹھ کھڑے ہوئے گھر سے نکل کے جائیں گے گھر سے کہاں نہیں معلوم
( ١٨٨٦ء، دیوان سخن، ١٣١ )
٨ - اب
بس خدا حافظ چلانا کامگار زندگی ہو مبارک آپ کو عیش بہار زندگی
( ١٩٣٢ء، نقوش مانی، ١٢ )
٩ - مصمم ارادے کے ساتھ، اٹل ہو کر۔
اب کون روکے شیر بڑھے جب تو بس بڑھے مقتل میں بیسں ہو کے لڑے جو کہ دس بڑھے
( ١٨٧٢ء، انیس، مراثی، ١٨٥:١ )
١٠ - کیا کہوں، کیا بیان کروں۔
نام عیسٰی کا کوئی لے کے نکل جائے دم تنگ جینے سے ہے ایسا دل بیمار کہ بس
( ١٨٧٧ء، کلیات قلق، ٧١ )