مقدار

( مِقْدار )
{ مِق + دار }
( عربی )

تفصیلات


قدر  مِقْدار

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں اصل معنی و ساخت کے ساتھ بطور اسم اور صفت استعمال ہوتا ہے۔ ١٩٣٥ء کو "سب رس" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - برابر، مساوی، یکساں۔
"تم بھی تو ایک سورت ایسی فصیح و بلیغ تین آیت کی مقدار بنا دیکھو۔"      ( ١٩٣٢ء، ترجمۂ قرآن، مولانا محمود الحسن، تفسیر مولانا شبیر احمد عثمانی، ٧ )
اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : مِقْداریں [مِق + دا + ریں (یائے مجہول)]
جمع غیر ندائی   : مِقْداروں [مِق + دا + روں (واؤ مجہول)]
١ - تخمینہ، اندازہ، شمار، تعداد، مجموعہ، وزن، ناپ، گنتی، پیمائش، قدرو قمیت۔
"خون میں شکر کی مقدار بڑھی ہو تو انسولین کی مقدار بھی بڑھا دیتے ہیں۔"      ( ١٩٩٩ء، آئیڈیل منافق، ١٥٢ )
٢ - مقدرت، حیثیت، وقعت۔
اپنے کام کی اہمیت، اسکی مقدار، معیار پر روشنی ڈالنے کا بھی وافر ملکہ تھا۔"      ( ١٩٨٥ء، اڑتے خاکے، ٢١٥ )
٣ - [ ریاضی ]  قیمت، قدر۔
"اگر کسی دی ہوئی چھوٹی مثبت مقدارصہ کے جواب میں جو کتنی ہی چھوٹی ہو ایک مثبت مقدارعا اس طرح وجود رکھتی ہو۔"      ( ١٩٤٧ء، ملتف متغیر کے تفاعل، ٥٩ )
٤ - [ ارضیات ]  طول، عرض، ملحق، کا مجموعہ، حجم۔
"یہ خطوط صحیح بلندی کو ظاہر نہیں کرتے، نہ ہی بلندی کی مقدار درج ہوتی ہے۔"      ( ١٩٦٤ء، عملی جغرافیہ، ٢٨ )
٥ - جسامت، ڈیل ڈول، مناسبت۔
"یہ تقسیم زیادہ حد تک اختیاری ہے کیونکہ ایک ہی مقدار کے ستارے بھی . اختلاف رکھتے ہیں۔"      ( ١٩٤٠ء، علم ہئیت، ٢٣٢ )
٦ - وقفہ، فاصلہ۔
"مقدار اس کی بارہ دن کی راہ کے برابر ہے۔"      ( ١٨٧٣ء، مطلع العجائب (ترجمہ)، ١٨٦ )
٧ - رقم، دولت۔
"جس قدر رقم عمارت کے گرانے اور ڈھلائی ملبہ میں صرف ہو گی اس سے کم مقدار میں نئی عمارت بن جائیگی۔"      ( ١٩٣٨ء، البرامکہ، ١٣٣ )
٨ - مقررہ تنخواہ یا وظیفہ، مدۃ العمر۔ (جامع اللغات)
٩ - گنتی یا پیمائش (مجازاً) قدر و قیمت، مجموعہ، میزان، جوڑ، حاصل۔
"وہ مقدار میں ایسی کچھ زیادہ نہیں ہے لیکن جتنی بھی ہے وہ ایک عالم جذب و مستی کی پیداوار ہے۔"      ( ١٩٦٣ء، شاعری اور شاعری کی تنقید، ١٣٥ )