ملاوٹ

( مِلاوَٹ )
{ مِلا + وَٹ }
( سنسکرت )

تفصیلات


اصلاً سنسکرت زبان کا اسم ہے۔ تاہم پراکرت زبان میں بھی مستعمل ملتا ہے۔ اردو میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٨٢٤ء کو "سیر عشرت" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
جمع   : مِلاوَٹیں [مِلا + وَٹیں (یائے مجہول)]
١ - ایک چیز میں کسی دوسری چیز کا ملنا، آمیزش۔
"ملائی بھی بول لیتے ہیں اور چینی بھی لیکن پنجابی کی ملاوٹ ان میں بھی کرتے جاتے ہیں۔"      ( ١٩٧٢ء، دُنیا گول ہے۔ ١٣٢ )
٢ - کسی خالص چیز میں غیر خالص اعلٰی چیز میں ادنٰی چیز کی آمیزش، کھوٹ۔
"رشوت، سفارش، بلیک مارکیٹ، ملاوٹ، اسمگلنگ، منافع خوری اور چوری چکاری وغیرہ میں ملوث ہو کر مال بٹورتے ہیں۔"      ( ١٩٩١ء، افکار، کراچی، مارچ، ٥٨ )
٣ - آپس میں میل جول، میل محبت۔
"ان کو آبادی سے موانست ہے نہ بھائی بندوں اور ہمسایوں کی طرح آپس میں ملاوٹ و رغبت۔"      ( ١٨٦٤ء، مذاق العارفین، ٢٤٠:٣ )
٤ - دو چیزوں کے ملنے یا ٹکرانے کا عمل، اتصال، رگڑ، وصل۔
"پھولوں میں نر اور مادہ ہوتا ہے اور ان کی ملاوٹ سے پھل اور بیج پیدا ہوتے ہیں۔"      ( ١٨٩١ء، کسانی کی پہلی کتاب، ٢١:١ )
٥ - ہمراز بنانے یا سانٹے کا عمل، سازش کرنا۔
"باورچیوں کو بھی کچھ ہزلیات، لغویات بک کر خوب محفوظ کیا . اور ملاوٹ کر کے سب ماہیت وزیر کی ے لی۔"      ( ١٨٢٤ء، سیر عشرت، ٦٧ )
٦ - [ موسیقی ]  مختلف سازوں یا ساز اور گلے کے بنیادی سروں کو ایک سطح پر لانا، ہم آہنگی۔
"سروں کی ملاوٹ، ٹٹ کی کھباوٹ۔"      ( ١٨٦٣ء، انشائے بہار، بے خزاں، ٥٣ )