جیسا

( جَیسا )
{ جَے (ی لین) + سا }
( پراکرت )

تفصیلات


جئیساو  جَیسا

پراکرت کے اصل لفظ 'جئیس او' سے ماخوذ 'جیسا' اردو میں بطور حرف استعمال ہوتا ہے۔ ١٧٧٢ء کو شاہ میر کی "انتباہ الطالبین" میں مستعمل ملتا ہے۔

حرف تشبیہ
جنسِ مخالف   : جَیسی [جَے (ی لین) + سی]
١ - جو کچھ، جس طرح، جس قسم کا۔
 جو کوئی جیسا کرے ویسا ہی ملتا ہے اوسے دل نے مجھ کو دکھ دیا دل کو ستایا آپ نے      ( ١٨٦٦ء، ہزبر، دیوان، ١٠١ )
٢ - گویا۔
"کوئی کشش ہر بار مجھے جیسے کھینچ کر واپس لے آئی ہے۔"      ( ١٩٥٦ء، چنگیز، ٧٣ )
٣ - (حرف تشبیہ کے طور پر جو مشہ بہ کے بعد آتا ہے) کے مانند)۔
"ان سے معزز ترین مسلمانوں جیسا برتاؤ کیا۔"      ( ١٩١٨ء، مسئلہ شرقیہ، ٣ )
٤ - جب، جوں ہی۔
"جیسے ہی کسی کو اپنی لمبی چوڑیخ تعظیم کرتے دیکھا تھا اس سے بگڑ کر کہہ دیا ہوتا کہ کیا مجھ کو بناتا ہے۔"      ( ١٩٨٨ء، روپائے صادقہ، ١٧٩ )