کوزہ

( کُوزَہ )
{ کُو + زَہ }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم ہے۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٦٤٩ء کو "خاورنامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : کُوزے [کُو + زے]
جمع   : کُوزے [کُو + زے]
جمع غیر ندائی   : کُوزوں [کُو + زوں (واؤ مجہول)]
١ - آب خورہ، پانی پینے کا چھوٹا ظرف جو چوڑے منھ کا ہوتا ہے۔
"ایک ٹکڑا نانِ جویں اور کوزہ آبِ سرد بھی اطمینان کے ساتھ نہیں ملتا۔"      ( ١٩٤٥ء، مولانا ظفر علی خاں بحیثیت صحافی، ١٢٤ )
٢ - مٹی کا برتن۔
"مئی جون میں جب تاڑ کے درختوں کی شاخیں میٹھے رس سے بھر جاتیں . چھوٹا بھائی مٹی کا کوزہ لے کر درخت پر چڑھ جاتا۔"      ( ١٩٨٨ء، یادوں کے گلاب، ٦٨ )
٣ - مصری کا کوزہ، کوزہ میں جمایا ہوا شکر کا ڈلا۔
"مٹھائی سے مراد بڑے بڑے بالوشاہی اور مصری کے نوسے لے کر گیارہ تک کوزے ہیں۔"      ( ١٩٠٥ء، رسوم دہلی، سید احمد دہلوی، ٥٣ )
٤ - قفلی
 کوئی کہتا ہے اس آتش کا اِطفا سخت مشکل ہے مگر دے دو کوئی گر برف کا کوزہ جمایا ہے      ( ١٨٥١ء، کلیاتِ مومن، ١٨٢ )
٥ - نسرین سے مشابہ سفید رنگ کا پھول، گلاب کی ایک قسم۔
"کوزہ : شکل و قطع میں گلاب سے مشابہ ہے۔"      ( ١٩٣٨ء، آئین اکبری (ترجمہ)، ٦١:١،١ )