مرید

( مُرِید )
{ مُرِید }
( عربی )

تفصیلات


لاد  مُرِید

عربی زبان سے مشتق اسم فاعل ہے۔ اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٥٦٥ء کو پرت نامہ، قطب الدین فیروز (اردو ادب، جون ١٩٥٧ء)" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
جمع   : مُریدَین [مُری + دَین (ی لین)]
جمع غیر ندائی   : مُرِیدوں [مُری + دوں (و مجہول)]
١ - اردات رکھنے والا، کسی کے ہاتھ پر بیعت کرنے والا، دینی یا روحانی شاگرد، باطنی شاگرد۔
"آپ جن کے مرید ہیں ان کو صحیح سمت کا پتہ ہی نہیں"      ( ١٩٩٨ء، افکار، کراچی، دسمبر، ٥٧ )
٢ - چیلا، شاگرد، پیرو۔
"وہ بساط تغیر پر اکیلی نہ تھی، کچھ اور لڑکیاں بھی اس کی مرید تھیں"      ( ١٩٢٠ء بنت الوقت، ٢٢ )
٣ - مطیع، فرماں بردار، معتقد۔
 گرچہ ہیں تیرے مرید افرنگ کے ساحر تمام اب مجھے ان کی فراست پر نہیں ہے اعتبار      ( ١٩٣٨ء، ارمغان حجاز، ٢٢١ )
٤ - [ مجازا ]  گرویدہ۔
"اب کیا تھا آدھے سے زیادہ شہر اس کا مرید ہو گیا"      ( ١٩١٧ء، شام زندگی، ٩٦ )
٥ - ارادہ کرنے والا، صاحب ارادہ۔
"یہی وہ چیزیں ہیں جن کو مرید و مختار کہا جاتا ہے"      ( ١٩٥٣ء، حکمائے اسلام، ٤٣٦:١ )
  • desirous
  • willing