مرنا

( مَرْنا )
{ مَر + نا }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت زبان سے ماخوذ اسم 'مر' کے ساتھ 'نا' بطور لاحقۂ مصدر لگانے سے بنا۔ اردو میں بطور فعل لازم اور اسم استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٦٠٩ء کو "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
١ - موت سے متعلق رسم، تجہیز و تکفین۔
"باپ کا مرنا بہت اچھی طرح کیا، جنازہ نہایت احتشام سے اٹھا۔"      ( ١٩٣٥ء، بیگمات شاہان اودھ، ٣ )
٢ - موت، مرگ۔
 غم فرقت ہے کھانے کو، شب غم ہے تڑپنے کا ملا ہے کو جینا کہ مرنا اس کو کہتے ہیں      ( ١٨٩٧ء، کلیات راقم، ١٠٨ )
فعل لازم
١ - دم نکلنا، موت آنا، وفات پانا، جان دینا۔
 مر گئے ہم، غم پڑے ایسے پر اس کے باوجود جاگتی آنکھوں کا کوئی خواب بھی ٹوٹا نہیں      ( ١٩٧٩ء، زیر آسمان، ١١٧ )
٢ - [ مجازا ]  رشک یا حسد کرنا۔
"بڑے بڑے عقلا حسد کرتے تھے اس کی ذہانت اور طبیعت کی جو دت پر مرتے تھے۔"      ( ١٨٩٠ء، فسانۂ دل فریب، ٣١ )
٣ - تکلیف یا مشقت برداشت کرنا، دکھ جھیلنا، اذیت سہنا۔
"اے بی مجھ سے اس گرمی میں نہیں مرا جائے گا میں جا کے کوٹھے پر کمرے میں سوؤں گی۔"      ( ١٩٠٠ء، خورشید بہو، ٥٠ )
٤ - (پر کے ساتھ) عشق ہونا، کسی پر فدا ہونا۔
"وہ چپکے ہی چپکے کالج کے ایک لکچرار پہ مرتی تھی۔"      ( ١٩٨٩ء، قصے تیرے فسانے میرے، ٢٤٠ )
٥ - (پر کے ساتھ) کسی چیز کا حد شوق رکھنا۔
 دنیا میں ہر ایک موت سے ڈرتا ہے یہ لوگ وہ ہیں جو موت پر مرتے ہیں      ( ١٩٥٥ء، رباعیات امجد، ١:٣ )
٦ - (پر کے ساتھ) کسی بات یا چیز کو زیادہ پسند کرنا یا کسی چیز کو جوبی پر بہت رشک کرنا۔
"وہ لوگ جو دوسری زبان کی شاعری پر مرتے ہیں وہ دیکھیں کہ خود ان کے ہاں ایک شاعر گزر چکا ہے جس کا کلام تنورع اور وسعت میں ایسا ہے کہ کسی زبان کا شاعر بھی اس سے ٹکر نہیں کھا سکتا۔"      ( ١٩٤٧ء، فرحت، مضامین، ٢٧٠:٧ )
٧ - کسی بات کی خواہش رکھنا، کسی چیز کی بہت حرص کرنا۔
"تم تین تین روپیہ کے پیادے مال مارتے ہو اور تس پر مرتے ہو۔"      ( ١٨٤٥ء، حکایت سخن سنج، ٧٣ )
٨ - (کسی دھات کا) کشتہ ہو جانا، خاک ہونا۔ (نور اللغات؛ جامع اللغات)۔
٩ - تباہ ہونا، برباد ہونا۔ (نور اللغات؛ جامع اللغات)
١٠ - پانی کا جذب ہونا، پانی کا سرایت کرنا۔
"پھر ہفتۂ باغبانی منایا گیا. کیونکہ لوگوں کے باغیچوں میں پانی بہت مرتا تھا۔"      ( ١٩٩٦ء، جنگ، کراچی، ٢٣ جنوری، ٩ )
١١ - جان گھلانا۔
 رونا خلاف صبر ہے، اب صبر کرنا چاہیے جو مرگیا اس کے لیے تم کو نہ مرنا چاہیے      ( ١٩٢٥ء، نیستان، ١١٦ )
١٢ - مرجھانا، کملانا، سوکھنا، نمو کی قوت یا تازگی ختم ہونا۔
"معمر حصے جب مرنے لگتے ہیں تو ان شاخوں نے نئے پودے تیار ہو جاتے ہیں۔"    ( ١٩٦٢ء، مہادی نباتیات (عبدالرشید مہاجر)، ٤٧ )
١٣ - (ہاتھ پاؤں کا) سن ہونا۔
 وہ اٹھائیں گے مرے قتل کا بیڑا کیونکر جن سے مرنا کبھی دیکھا نہ گیا یاتوں کا    ( راسخ (نور اللغات) )
١٤ - شطرنج کے مہرے یا پچیسی کی گوٹ کا بیٹا جانا۔ (ماخوذ: نور اللغات)
١٥ - کھلاڑی کا شکست کھانا، ہارنا؛ کھیلنے کے قابل نہ رہنا۔
"اب جب دوسری طرف کا کوئی کھلاڑی مریگا تو یہ پھر جی اُٹھے گا۔"    ( ١٩٦٢ء، ساقی، کراچی، جولائی، ٥٣ )
١٦ - (چونے کے لیے) خشک ہو کر قوت جاتی رہنا، سوکھ کر خراب ہو جانا۔ (نور الغات)
١٧ - شوق کی زیادتی کے ساتھ کسی بات کا دعویٰ کرنا (ماخوذ: نور اللغات)
١٨ - اس موقع پر یا جگہ سے غیر حاضر ہونا جہاں ہونا چاہیے۔
"ارے او مہرا، مہرا، یہ نہ جانے کہاں جا کر مر رہا وقت پر ایک بھی آدمی نظر نہیں آتا۔"      ( ١٩٣٢ء، میدان عمل، ٣٢٢ )
١٩ - سو جانا، (کہنے والا اپنے لیے یا دوسرے کے لیے ناخوشی اور آزردگی کی کیفیت میں اس لفظ کا اس معنی پر اطلاق کرتا ہے)۔
 سود اتری فریاد سے آنکھوں میں کٹی رات آئی ہے سحر ہونے کو ٹک تو ہیں مر بھی      ( ١٧٨٠ء، سودا، کلیات، ٢٠٧:١ )
٢٠ - شرمندہ ہونا۔
 شب غم میں رہے جیتے برا ہو سخت جانی کا نہ آئی موت اس غیرت کے مارے ہم تو مرتے ہیں      ( ١٨٨٨ء، صنم خانۂ عشق، ١٥٣ )
٢١ - کسی بات، شے یا شخص کی آرزو یا خواہش میں بے قرار ہونا۔
 اسے دیکھا کہ جس کے دیکھنے کو لوگ مرتے ہیں نظر بازو ہماری بھی ذرا حد نظر دیکھو      ( ١٩٥٤ء، صفی اورنگ آبادی (قلمی نسخہ، دیوان) )
٢٢ - جان جوکھوں میں ڈالنا، کوشش کرنا، افسوس کرنا، رونا پیٹنا، (جامع اللغات؛ علمی اردو)۔
٢٣ - خشک ہونا۔
"چلو چلو بھر پانی ڈالتی رہنا کہ ساندہ پانی مرتا جائے۔"      ( ١٩٠٨ء، صبح زندگی، ١٣٩ )
٢٤ - ڈوبنا، وصول نہ ہونا؛ بٹے کھاتے میں لکھا جانا، جیسے: اسامی ہونا؛ ٹوٹا آنا، خسارہ بیٹھنا، نقصان ہونا، دیوانیہ ہونا (فرہنگ آصفیہ؛ علمی اردو لغت)
٢٥ - انتہائی بے زاری اور خفگی کے لیے؛ جیسے: جاؤ مرو (علمی اردو لغت)۔
٢٦ - مردار ہونا، جان نہ رہنا، جیسے: جسم کی کھال مرنا (فرہنگ آصفیہ؛ علمی اردو لغت)۔