تمثال

( تِمْثال )
{ تِم + ثال }
( عربی )

تفصیلات


مثل  تِمْثال

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے جو اردو میں اپنے اصل معنی و ساخت کے ساتھ بطور اسم ہی استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً سب سے پہلے ١٦١١ء کو "کلیات قلی قطب شاہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : تِمْثالیں [تِم + ثا + لیں (ی مجہول)]
جمع استثنائی   : تِمثالات [تِم +ثا + لات]
جمع غیر ندائی   : تِمثالوں [تِم + ثا + لوں (و مجہول)]
١ - (خیالی) تصویر، پیکر۔
"ہم میں یہ قابلیت ہونیچ اہیے کہ ہر تصویر یا ہر تمثال کو کسی خاص لفظ کے ساتھ اس طرح ربط دیں کہ جب یہ سنائی دے تو تصور فوراً ذہن میں پیدا ہو جائے۔"      ( ١٩٣٧ء۔ اصولِ نفسیات، ٣٧ )
٢ - مورت، پُتلا، مجسمہ۔
 کہنہ صندوق میں تھی اک تمثال اس کو لے آئی جلد حاکے لال      ( ١٨٠٢ء، حسرت (جعفر علی)، طوطی نامہ، ١١٥ )
٣ - عکس، شبیہ، سایہ۔
"وہ اسکی تمثال کو نقش و رنگ کے واسطے صفحۂ قرطاس کے حوالے کر دیتا ہے۔"      ( ١٩٤٦ء، شیرانی، مقالات، ١٨٥ )
٤ - مثل، مثال، طرح، مانند۔
 تن خشک ہوئے زور گھٹے سر کے بڑھے بال خم ہوگئے کاہش سے مہ عید کی تمثال      ( ١٩١٥ء، ذکر الشہادتین، ٨٢ )
٥ - صورت، شبیہ۔
"پڑھنے والے کے ذہن میں کوئی خیال آنے کی بجائے اسکی نگاہوں کے سامنے کوئی تمثال یا تمثالوں کا مجموعہ آجائے۔"      ( ١٩٦٨ء، مغربی شعریات، ٣٧ )
٦ - فرمانِ شاہی (نور اللغات؛ جامع اللغات)۔