نروان

( نِرْوان )
{ نِر + وان }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت سے اردو میں ماخوذ ہے اور بطور اس نیز بطور صفت استعمال ہوتا ہے اردو میں سب سے پہلے ١٨٨٤ء کو "قصص ہند" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
١ - بجھایا جانا، پھونکنا، بجھا ہوا ہونا۔
"یہ لفظ ویدک میں بھی ملتا ہے اس کی تشریح ( نر+وان ) پھونکنا، ٹھنڈا کرنا ہے۔"      ( ١٩٨٢ء، پرچین اردو، ٩٨ )
٢ - مادی حالت سے نجات یا رہائی، نجات اخروی، دینوی تکالیف، عذاب سے نجات، رہائی، روح کی نجات، معدومیت، فنا فی اللہ۔
"جب خواہشات اور تعینات کے تمام پردے چاک ہو جاتے ہیں تو نروان (وصل، اخروی) حاصل ہو جاتا ہے۔"      ( ١٩٨٢ء، پراچین اردو، ٩٨ )
٣ - مزید پیدائش سے نجات، آواگون سے چھٹکارا، مکتی، نجات۔
"چوتھا مرحلہ وہ ہے جس کے بعد وہ دوبارہ جنم نہیں لیتا بلکہ نروان حاصل کر لیتا ہے۔"      ( ٢٠٠١ء ادیان و مذاہب کا تقابلی مطالعہ، ١٦٢ )
صفت ذاتی
١ - بغیر ہوا کے۔
"بیٹا، نروان میں 'نر' کا مطلب ہے بغیر اوروان، کا مطلب ہے ہوا، یعنی بغیر ہوا کے۔"      ( ١٩٨٩ء، سمندر اگر میرے اندر گرے، ٨٢ )
٢ - بجھا ہوا؛ جیسے: آگ، دیپک وغیرہ؛ منقطع؛ غائب، اوجھل؛ وجود سے آزاد، معدوم؛ مردہ، نیست؛ دوبا ہوا، محو نیز مخلصی بخشا ہوا، جسے مادی علائق یا مدے سے نجات دے کر عین وصالِ خدا تعالی عطا کیا گیا ہو۔