پاشکستہ

( پاشَکَسْتَہ )
{ پا + شَکَس + تَہ }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی سے اردو میں دخیل اسم 'پا' کے ساتھ فارسی مصدر 'شکستن' سے حالیہ تمام 'شَکَسْتَہ' ملنے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے اور ١٨١٠ء کو "کلیات میر" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - (لفظاً) جس کا پانو ٹوٹ گیا ہو (مجازاً) بے بس، لاچار، معذور۔
"آج دیکھو کس درجہ بیکس و بے بس . کیسے افسردہ و پاشکستہ بیٹھے ہیں۔"      ( ١٩٢٦ء، شرر، مضامین، ١|٣: ٥ )
٢ - جو تو کل کرکے گوشہ نشین ہو جائے، کم آمیز۔
"اپنے مرشد کی رحلت کے وقت سے برابر طالبانِ خدا کی خدمت میں پاشکستہ اور دست شکستہ اپنے مکان پر مصروف رہے۔"      ( ١٩٢٩ء، تذکرہ کاملان رام پور، ٢٧٠ )