تزک

( تُزُک )
{ تُزُک }
( ترکی )

تفصیلات


اصلاً ترکی زبان کا لفظ 'توزک' ہے ترکی سے اردو قاعدے کے مطابق 'تزک' بنا اور اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٨٠٣ء میں "باغ و بہار" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - ترتیب، انتظام، قاعدہ، ضابطہ شکر؛ ضابطہ مجلس۔
"یہاں تک کہ اردشیر کے تزک کو دستور العمل قرار دیا تھا۔"      ( ١٩١٤ء، شبلی، ملاقات، ١٥٧:٦ )
٢ - روزنامچہ شاہی، بادشاہ وغیرہ کے خود نوشت حالات و واقعات۔
"جہانگیر نے بھی اپنے پردادا کی ریس میں تزک لکھی تھی۔"      ( ١٩٤٤ء، نادرات شاہی، (مقدمہ)، ٤٢ )
٣ - شان و شوکت، احتشام، تجمل، جلوس۔
 نام کے ساتھ آہ بھی ہے نالہ بھی ہے نعرہ بھی ہے اس تزک اس شان سے لب تک وہ نام آیا تو کیا      ( ١٩١٦ء، نغمہ جگر دوز، ٣٤ )
٤ - ترکش۔ (فرہنگ آنند راج)۔