قانون

( قانُون )
{ قا + نُون }
( عربی )

تفصیلات


عربی زبان سے اسم جامد ہے۔ عربی سے اردو میں معنی و ساخت کے اعتبار سے مِن و عن داخل ہوا اور بطور اسم مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٥٦٤ء کو "دیوانِ حسن شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع   : قَوانِین [قَوا + نِین]
١ - وہ عام قواعد و ضوابط جن کا تعلق انسانوں کے افعال سے ہے۔ اور جسے حکومت نافذ کرتی ہے۔
"تکالیف سے بچنے کی آسان صورت یہ کر لی جاتی ہے کہ قانون تیار کر کے اس کا اشتہار کر دیا جائے۔"      ( ١٩٨٤ء، مقاصدو مسائلِ پاکستان، ١٤٣ )
٢ - قاعدہ، دستور، ضابطہ۔
"اس کو اللہ تعالٰی نے اپنا وہ دستور اور قانون فرمایا ہے جس میں تتغیر و تبدیلی ناممکن ہے۔"      ( ١٩٢٣ء، سیرۃ النبیۖ، ٢٦٧:٣ )
٣ - سرود کی وضع کا تیئیں فولادی تاروں کا ساز جس کے کل تارتہ تالے میں بٹے ہوتے ہیں اور چوبی مہرک سے جس کو اصطلاحاً جو اور سُر گھوٹا بھی کہتے ہیں، بجایا جاتا ہے۔ یہ ابو نصر فارابی کی ایجاد ہےنیز پیانو، باجہ۔
"موجودہ شکل میں قانون اور سرمنڈل ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔"      ( ١٩٤١ء، ہماری موسیقی، ١٠٢ )
٤ - سفید براق رنگ کا گھوڑا جس کے کان سیاہ اور سیلی کالی ہو۔
 اور جو کالی ہو سیلی کالا کان! آئے قانون کا تب اس پہ نشان      ( ١٨٤١ء، زینت الخیل، ١٦ )
٥ - شیخ بو علی سینا کی طب کی کتاب۔
 کبھی میں کرتا تھا قانون سے تشریحِ علاج! کبھی میں کرتا تھا قاموس میں تصحیح لغت      ( ١٨٤٥ء، دیوان ذوق، ٣١١ )
  • a canon
  • rule
  • regulation
  • law
  • legislative act
  • stature
  • ordinance;  a species of dulcimer or harp