قرین

( قَرِین )
{ قَرِین }
( عربی )

تفصیلات


عربی زبان سے اردو میں داخل ہوا۔ ١٧٨٢ء کو "دیوان محبت" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - پاس، نزدیک، قریب۔
 تو سنے دل کی صدا تو ہے شہ رگ کے قریں      ( ١٩٧١ء، زاد سفر، باقی صدیقی، ٥٧ )
٢ - ملا ہوا، ملحق۔
"میں اسے اپنی طرف منسوب کرنا جائز و قرین دیانت نہیں سمجھتا"۔      ( ١٩٥٨ء، شاد کی کہانی شاد کی زبانی، ٥ )
٣ - مثل، مانند (عموماً فارسی مرکبات میں)۔
 گریہ آفت قریں کو مدعا سے کیا غرض ناز حسرت نشاں کو کام کیا تاثیر سے      ( ١٩٥٠ء، ترانہ وحشت، ١٠٣ )
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - ہم نشیں، دوست۔
 مے پی کے سونا ہے تجھے زیر زمیں دشمن نہ وہاں دوست نہ مونس نہ قریں      ( ١٩٨٥ء، دستِ زر افشاں، ٩٦ )
  • a friend;  an equal;  a contemporary