غار

( غار )
{ غار }
( عربی )

تفصیلات


عربی زبان سے مشتق اسم ہے، اردو زبان میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٦٠٩ء کو "قطب مشتری" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر، مؤنث - واحد )
جمع   : غاریں [غا + ریں (یائے مجہول)]
جمع غیر ندائی   : غاروں [غا + روں (واؤ مجہول)]
١ - گڑھا، زمین کا کھوکھلا حصّہ، کھوکھلی جگہ۔
"خوفناک کھنڈرات کا اک سلسلہ واقع ہے جس میں گہری غاریں ہیں۔"      ( ١٩٨٧ء، صحیفہ، جولائی، ستمبر، ٦٢ )
٢ - پہاڑوں یا ان کے دامن کا وہ خلا جو طبیعی عوامل کے سبب واقع ہو جاتا ہے، کھوہ، گپھا۔
"سر چھپانے کے لیے غار یا گھر، برق و باراں سے حفاظت کے لیے ٹھکانا۔"      ( ١٩٨٦ء، فیضان فیض، ٤٦ )
٣ - [ استعارۃ ]  گہرا زخم، گھاؤ (پڑ جانا، کے ساتھ)۔
"کپڑا بھگو کر باندھا مگر خون بند نہ ہوا، باپ نے آکر دیکھا آدھ انگل غار پڑا ہوا تھا۔"      ( ١٨٩٥ء، حیات صالحہ، ٢٥ )
٤ - پہاڑوں اور جنگلوں میں پیدا ہونیوالا ایک درخت، اس کے پتے خوشبو دار ہوتے ہیں اس کی چھال، پتے اور پھل دوا کے طور پر استعمال ہوتے ہیں، اس کے پھل کو 'حب الغار' کہتے ہیں۔
"غار کے پھلوں کو کچل کر پانی میں جوش دیتے ہیں اور پھر چھوڑ دیتے ہیں۔"      ( ١٩٢٦ء، خزائن الادویہ، ١٤٨:٥ )
  • A cave
  • cavern
  • pit
  • hole
  • den or lair (of a wild beast);  a grotto;  a hollow
  • low or depressed land or ground (where water lies);  a deep gash or wound