قیافہ

( قِیافَہ )
{ قِیا + فَہ }
( عربی )

تفصیلات


عربی زبان سے ماخوذ اسم ہے اصلی معنی اور حالت میں اردو میں داخل ہوا اور بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٨٨٢ء میں "طلسم ہوشربا" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد ندائی   : قِیافے [قِیا + فے]
جمع   : قِیافے [قِیا + فے]
جمع ندائی   : قِیافوں [قِیا + فوں (و مجہول)]
١ - وہ اندازہ جو شکل، صورت، حرکات و سکنات یا کسی علامت یا شگون سے لگایا جائے، اٹکل۔
"بھاوج قیافہ اور شبہ پر کہہ رہی تھی مگر عبدو کے کان بھی سن رہے تھے۔"      ( ١٩٨٦ء، جوالامکھ، ٦٠ )
٢ - وہ علم جس میں چہرے مہرے وغیرہ کے خط و خال و علامات سے بھلا بُرا شگون لینے اور صاحب علامات کے اقوال و افعال و احوال سے بحث کرتے ہیں، مالی۔
 تھا آپ کے قیافے پہ اول سے آشکار غیرت پہ اپنی ہو گئی آخر کو وہ نثار      ( ١٩٨٤ء، قہر عشق، ٤٨١ )
٣ - فال، شگون۔
"یہاں تک کہ شعبدے اور نیرنگ جات، قیافہ و فال اکسیر و کیمیا . ان لغویات سے بھی بے پروائی نہ کی۔"      ( ١٩٩٨ء، مقالات شبلی، ٦، ٨٣ )
٤ - شناخت، پہچان، ادراک۔
"ہوشمند وہی ہے کہ ہر ایک بات قیافے اور رمز کنائے اور ہونٹھ ہلنے سے پہلے دریافت کر جاوے۔"      ( ١٨٢٤ء، سیر عشرت، ٣٧ )
٥ - عقل، سوجھ بوجھ، تمیز۔
"میں نے تو اسے آپ صاحبوں کے قیافے پر چھوڑ دیا تھا۔"      ( ١٩٣٥ء، دودھ کی قیمت، ٣٥ )
٦ - چہرہ مہرہ، شکل و صورت کے قرائن وغیرہ۔
 تیرے نفس کی خوشبو صد رشک مشک نافہ تیری جبیں درخشاں روشن ترا قیافہ      ( ١٩٧٥ء، خروش خم، ٤٨ )