آدم

( آدَم )
{ آ + دَم }
( عبرانی )

تفصیلات


ادمہ  آدَم

عبرانی زبان میں 'ادمہ' (خاک) سے 'آدم' (پیکر خاکی) ماخوذ ہے۔ عربی میں بھی 'آدم' ہی مستعمل ہے اور قرین قیاس ہے کہ اردو میں عربی سے داخل ہوا ہے اور اردو میں سب سے پہلے ١٦٠٩ء میں "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم معرفہ ( مذکر - واحد )
جنسِ مخالف   : حَوّا [حَوْ + وا]
١ - (معرفہ) پہلا انسان اور نبی جس سے انسان کی نسل شروع ہوئی، ابوالبشر، باوا آدم۔
"اس کی آب و ہوا ابلیس کو تو راس آ گئی جو اب تک زندہ ہے اور .'آدم' کو راس نہ آئی جو یہاں سے رخصت ہو گیا۔"      ( ١٩٣٦ء، اقبال نامہ، ٣٣:١ )
٢ - [ مجازا ]  آدمی، ابن آدم، انسان، نوع انسان (مرد اور عورت دونوں کے لیے)۔
یہی آدم ہے سلطان بحر و بر کا کہوں کیا ماجرا اس بے بصر کا      ( ١٩٣٥ء، بال جبریل، ٣٢ )
٣ - معقول آدمی، انسانی صفات رکھنے والا آدمی، با سلیقہ یا فہیم انسان۔
"مختلف قسم کے انسانی نمونے ایک دوسرے سے مل کر ایک ایسا آدم تیار کریں جو تہذیب اور تمدن کی ایک نئی تشکیل کر سکے۔"      ( ١٩٤٣ء، تعلیمی خطبات، ڈاکٹر ذاکر حسین، ٣٤ )
٤ - کسی فن یا صناعت کا موجد یا ابتدا کرنے والا۔
"انھیں ہندوستان کی خوشنویسی کا آدم نہیں تو نوح ضرور ثابت کر دیا۔"      ( ١٩٢٦ء، شرر، مشرقی تمدن کا آخری نمونہ، ٢١٢ )
٥ - خادم، خدمت گار، قاصد۔
 میں حیران ہوں کس طرح سے اے خدا مرے گھر کے آدم کو پرچہ دیا      ( ١٨٥٩ء، حزن اختر، واجد علی شاہ، ٦٧ )
٦ - بھورا، مٹیالا، گندمی، گیہوتواں۔ (فرہنگ آصفیہ، 131:1)
٧ - [ تصوف ]  خلیفہ خدائے تعالٰی اور روح عالم۔ (مصباح التعرف لارباب التصوف)