تشفی

( تَشَفّی )
{ تَشَف + فی }
( عربی )

تفصیلات


شفا  شِفا  تَشَفّی

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے اردو میں اصل معنی اور حالت میں بطور اسم مستعمل ہے ١٨٠٢ء میں "باغ و بہار" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - صحت، شفا، بحالی (جامع اللغات)۔
٢ - قرار، قیام۔
"تم سے تشفی چاہتی ہوں گو کہ صورت یہ ہے وہ ہم سے بھی زیادہ کشتہ تیغ ستم نکلے۔"      ( ١٩٤٥ء، حرف آشنا، ١٢١ )
٣ - تسلی، ڈھارس۔
"تمہارے تشفی دینے سے میری بھی زندگی ہوئی۔"      ( ١٨٠٢ء، باغ و بہار، ٢٨ )
٤ - اطمینان، دل جمعی۔
"ان کی تقریر ایسی ہوتی ہے جس سے سامع کو تشفی ہو جاتی ہے۔"      ( ١٩٠٢ء، الکلام، ١٠٤:٢ )
٥ - سکون، (جوش کا) خاتمہ۔
"جس غایت یا (تغیر حالات) سے ہیجان کی تشفی ہوتی اور سلسلہ فعلیت ختم ہو جاتا ہے ان کی دریافت بھی بے محل نہیں۔"      ( ١٩٣٢ء، اساس نفسیات، ١٤٢ )
٦ - سہارا، آسرا۔
"اب اس کا ایسا وقت آپہنچا ہے کہ اس کے بچے اس کی تسلی کا سبب ہوں گے۔"      ( ١٩٠٧ء، نپولین اعظم، ٦٢٤:٣ )
٧ - بہلاوا، طفل تسلی۔
 خزاں کے خوف سے مافوق ارض گنبد گردوں تشفی کو تصور کا چمن ہم نے بنایا ہے      ( ١٨٢٨ء، دیوان ہوس (قلمی نسخہ)، ٩٢ )