تسوید

( تَسْوید )
{ تَس + وِید }
( عربی )

تفصیلات


سود  مَسَوَّدَہ  تَسْوید

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے اردو میں اصل معنی اور حالت میں بطور اسم مستعمل ہے ١٩٢٨ء میں "مہرو مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - [ لفظا ]  کالا کرنا، (مجازاً) لکھائی، تحریر، نگارش، لکھنا؛ پہلا مسودہ؛ نقشہ، خاکہ۔
"کل ایک زیر تسوید کتاب کا ایک خاص مقام لکھ رہا تھا۔"      ( ١٩٤٣ء، غبار خاطر، ٢٢١ )
٢ - سیاہی کا نشان، (جسم کو) گودنے کے نشان یا نقوش جن کا اقوام یا قبائل میں رواج ہے۔
"اگر بندوق کی گولی کا زخم ہے تو گردو پیش کی جلد میں ٹیٹو یا تسوید کی تلاش کرنا چاہیے۔"      ( ١٩٣٧ء، طب قانون و سمومیات، ٢٨ )
٣ - [ تصوف ]  سیاہی میں نور کا ظہور۔
"تسوید سے مراد تجلی الٰہی ہے جو کہ موجودات کے ذرے سے لمحہ بہ لمحہ گزرتی رہتی ہے اور ان ہی انوار کے ذریعے تمام موجودات ایک دوسرے سے روشناس اور منسلک ہوتے ہیں۔"      ( ١٩٨٢ء، روحانی ڈائجسٹ، اکتوبر، ٨٨ )