متواتر

( مُتَواتِر )
{ مُتَوا + تِر }
( عربی )

تفصیلات


وتر  تَواتُر  مُتَواتِر

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو زبان میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ ١٨٥٦ء کو "فوائد الصیبان" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - پے در پے، یکے بعد دیگرے، لگاتار، مسلسل، پیہم۔
"وہ لوگ بے شک غلطی پر ہیں جو یہ چاہتے ہیں کہ جس اردو زبان نے قریباً سو سال کی متواتر اصلاحوں سے برٹش گورنمنٹ کے مبارک عہد میں یہ عزت حاصل کی ہے وہ غیرممالک میں بطور ایک ملکی زبان پڑھائی جائے۔"      ( ١٩٩٦ء، قومی زبان، کراچی، ستمبر، ٨ )
٢ - [ حدیث ]  وہ حدیث جو کئی اسناد سے معقول ہو، راویوں کی تعداد ہر مرحلے میں اتنی رہے جن کا جھوٹ پر جمع ہونا عقلاً محال ہو اور جس کی صحت کے متعلق کبھی کوئی اعتراض نہ ہوا ہو۔
"شیخ جلال الدین سیوطی نے اپنے منظور رسالے. میں ستر (٧٠) احادیث کا حوالہ نقل کر کے ان روایات کو متواتر فرمایا ہے۔"      ( ١٩٧٢ء، معارف القرآن، ٢٣٦:٥ )
٣ - [ عروض ]  وہ رکن جس میں ایک متحرک حرف دو ساکن حروف کے درمیان آئے، جیسے: مفاعلین میں ع اور ل۔
"متواتر وہ قافیہ ہے جس کے آخر میں دو ساکن کے درمیان ایک متحرک ہو۔"      ( ١٩٣٩ء، میزان سخن، ١٣٩ )