بانس

( بانْس )
{ بانْس (ن مغنونہ) }
( سنسکرت )

تفصیلات


ونش  بانْس

سنسکرت میں اصل لفظ 'ونش' ہے اردو زبان میں اس سے ماخوذ 'بانس' مستعمل ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٥٦٤ء میں 'حسن شوقی' کے دیوان میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : بانْسوں [باں + سوں (واؤ مجہول)]
١ - ایک گرہ دار اندر سے بیشتر کھوکھلی اور ریشہ دار لکڑی کا اونچا جنگلی درخت؛ اس درخت کی لکڑی جو عموماً چھپروں اور ہلکی قسم کی چارپائیوں کی پٹیوں اور سیروں میں استعمال ہوتی ہے۔
"ان جنگلات میں - بید اور بھانس بھی - بلند ہوتے ہیں۔"      ( ١٩٠٦ء، تربیت جنگلات، ١٤ )
٢ - تقریباً سوا تین گز کا آلۂ پیمائش جس سے زمین اور دریا کی گہرائی وغیرہ ناپتے ہیں۔
"جنگل کی ٹیڑھی بانس ڈیڑھ اونچی پھر پھراتی ہوئی بول رہی تھی۔"      ( ١٩٤٤ء، رفیق حسین، گوری ہو گوری، ١٣١ )
٣ - ریڑھ کی ہڈی۔ (شبد ساگر، 3433:7)
"سردی بانس پشت کے اوپر سے نیچے ہو کر گرمی معلوم ہوتی ہے۔"      ( ١٨٦٠ء، نسخۂ عمل طب )
١ - بانس پر چڑھانا
بدنام کرنا، رسوا کرنا۔"اے ہے آپ مجھے بانس پر کیا چڑھاتے ہیں اچھا اگر آپ مجھے ایسا ہی سمجھتے ہیں تو اسے ثابت کیجیے"      ( ١٩٢٧ء، عظمت، مضامین، ١٤٦۔ )
بہت تعریف کرنا۔"کچھ یار دوستوں نے بانس پر چڑھایا کچھ روپے کے نشہ نے زور دکھایا"      ( ١٩٥٤ء، پیر نابالغ،٥ )
٢ - بانس ٹوٹنا
خوب مار پڑنا، اتنا پیٹنا کہ لاٹھیاں ٹوٹ جائیں۔ اس کے بوٹا سے قد سے جو نہ جھکا پائی سزا بانس گلزار میں بالاے صنوبر ٹوٹے      ( ١٨٥٨ء، امانت، دیوان، ١١٩۔ )
  • the bamboo