تاک

( تاک )
{ تاک }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت زبان سے ماخوذ ہے۔ سنسکرت میں اس کے برعکس اصل لفظ 'ترکیہ' مستعمل ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٨٣١ء کو "دیوان ناسخ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم مجرد ( مذکر - واحد )
١ - ٹکٹکی، نگاہ، جمی ہوئی نظر۔
"متصل نہر کے انگور کی تاک تھی، ہر شجر کی اس پر تاک تھی۔"      ( ١٨٨٢ء، طلسم ہوشربا، ٦٠:١ )
٢ - گھات، کمین۔
 نامۂ یار کا مشکل ہے پہنچنا مجھ تک تاک میں غیر بھی ہیں حضرت سنسر کے سوا      ( ١٩٤٢ء، سنگ و خشت، ٧ )
٣ - انتظار۔
 پر وقت کی تاک میں برابر ہمت تیری گن رہی تھی گھڑیاں      ( ١٩١٣ء، کلیات نظم حالی، ٥٤ )
٤ - تلاش۔
 فرقت گل میں بچے گی کس طرح سے جان زار باغ میں صیاد کو بلبل کی ناحق تاک ہے      ( ١٨٦١ء، کلیات اختر، ٨٠٢ )
٥ - شست، نشانہ۔
 بہت اپنی تاک بلند تھی، کوئی بیس گز کی کمند تھی پر اچھال پھاند وہ بند تھی ترے چوکیداروں کی جاگ سے      ( ١٨١٨ء، انشا، کلیات، ١٦٥ )
٦ - دیکھ بھال، توجہ، اہتمام۔
 ساقی کے ساتھ راحت و آرام بھی گیا اب کون مے پلائے گارندوں کو تاک سے      ( ١٩٢٧ء، شاد، میخانۂ الہام، ٢٩٧ )