اٹکل

( اَٹْکَل )
{ اَٹ + کَل }
( ہندی )

تفصیلات


ہندی زبان کے لفظ 'اَٹْکَلَّ' سے ماخوذ ہے۔ اردو میں مستعمل ہوا۔ سب سے پہلے ١٥٩٣ء، کو "آئین اکبری" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم مجرد ( مؤنث - واحد )
جمع   : اَٹْکَلیں [اَٹ + کَلیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : اَٹْکَلوں [اَٹ + کَلوں (و مجہول)]
١ - حس ذکی، وجدان، جبلی صلاحیت
 دیکھا چشم غور سے تو ہے بدل ہر چیز کا بدلے آنکھوں کے ہے اٹکل کور مادر زاد کو      ( ١٨٦٧ء، رشک، دیوان(ق)، ٢٥٤ )
٢ - قیاس، عقلی تکا، قرینہ (جس کی بنیاد علم و ادراک پر نہ ہو)
"اٹکل سے معلوم ہوتا ہے کہ گھر ایک بھی نہیں بچا۔"      ( ١٩٢٢ء گوشہ عافیت، پریم چند، ٢٣٠:١ )
٣ - اندازہ، تخمین (وزن، شمار اور پیمائش کے بغیر)
 پیمانے کی حاجت نہیں مجھ تشنہ مے کو اے پیر مغاں تو مجھے اٹکل سے پلا دے      ( ١٩٠٥ء، یادگار داغ، ١٠٤ )
٤ - دریافت، وقوف (جس کی بنیاد ذوق یا فطری تمیز پر ہو)
 کن حسینوں سے تم کو نسبت دوں سب سے اچھے ہو میری اٹکل میں      ( ١٨٦٨ء، رشک، (ق)، ٩٦ )
٥ - سواد، پہچان، شناخت (تجربے یا تکرار کے بعد)
"وہ اپنی دریافت مقصد کے باعث اپنے فن کی اٹکل بھی ہاتھ سے کھو بیٹھتا ہے۔"      ( ١٩٦٦ء، شاعری اور تخیل، ٣٢ )
١ - اَٹکل لگانا
اندازہ کر لینا۔"سطحی نظر سے ہر ایک آدمی کچھ نہ کچھ اٹکل لگا لیتا ہے۔"      ( ١٩٢٥ء، اسلامی گئو رکشا، ١١ )
٢ - اَٹکل باندھنا
صحیح صحیح اندازہ کر کے کسی کام کا ڈول ڈالنا۔"یہاں سے یہ اٹکل باندھ کے خطا کی طرف کون اڑتا ہے۔"      ( ١٧٤٦، قصہ مہر افروز و دلبر، ٧٤ )
٣ - اٹکل کرنا
اندازہ لگانا، سوچنا، سمجھنا۔"ایسے سودوں میں لوگ اپنے نزدیک پھلوں کی اٹکل کر لیتے ہیں۔"      ( ١٩٠٦ء، الحقوق و الفرائض، ٤٠٠:٢ )
٤ - اٹکل کی فاتحہ دینا
بے سمجھے بوجھے کچھ کہنا، کبھی کچھ کہنا اور کبھی کچھ۔۔"پردہ زنگاری کے اندر کا حال تمھیں کیونکر معلوم ہوا اٹکل کی فاتحہ دینے سے کیا حاصل۔"      ( ١٩٣٠ء، اودھ پنچ، لکھنو، ١:١٥، ٣ )
  • Guess
  • conjecture
  • supposition;  rough computation or estimate;  skill in judging
  • discernment
  • judgment
  • opinion;  quantity;  size.