چاک[1]

( چاک[1] )
{ چاک }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے اردو میں ماخوذ ہے اردو میں بطور حاصل مصدر ہے ١٧٣٩ء، میں "کلیات سراج" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : چاکوں [چا + کوں (واؤ مجہول)]
١ - شگاف، شگافتگی، پھٹنے یا چرنے کا نشان، وہ جگہ یا حصہ جو پھٹ یا چر گیا ہو؛ پھٹاؤ۔
 وہ عندلیب ہوں جل کر کروہ جو نالۂ گرم قفس کے چاکوں سے اٹھنے لگے دھواں میاد      ( ١٨٣٢ء، دیوان رند، ٥٦:١ )
٢ - کرتے یا قمیض کے گربیان یا آسینوں کا کھلاؤ نیز وہ کھلاؤ جو دو دامنوں کے گھیر کے جوڑ پر ہوتا ہے۔
"چاکوں کے بیچ میں انگلی بھر چکوتی لگے گی۔"      ( ١٩٠٨ء، صبح زندگی، ١٦١ )
٣ - درز، دو چیزوں کے درمیان کا فاصلہ۔
 خدا کے واسطے چاک قفس میں پھول نہ رکھو کہ برگ گل میری چھاتی پہ سنگ ہے صیاد    ( ١٨٢٤ء،مصحفی، دیوان (انتخاب رام پور)، ٨٢ )
٤ - کواڑ کی درز، کواڑ کی جھری یا دراڑ۔
 زخم دل میرا نہیں جو ہو نہ ہرگز التیام ایک دن بندا اوس پری کا چاک دار ہو جائے گا    ( ١٨٣١ء، دیوان ناسخ، ٨:٢ )
صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : چاکوں [چا + کوں (و مجہول)]
١ - پھٹا ہوا، چیرا ہوا، دریدہ، شگافتہ۔
 چاک اس ڈول سے ہے ہر دیوار جیسے چھاتی ہو عاشقوں کی فگار      ( ١٨١٠ء، میر، کلیات، ١:١٥ )
  • شَگاف