پیام

( پَیام )
{ پَیام }
( فارسی )

تفصیلات


پیام  پَیام

فارسی سے اردو میں اپنی اصل صورت و مفہوم کے ساتھ داخل ہوا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے اور سب سے پہلے ١٦٦٥ء کو 'علی نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم مجرد ( مذکر - واحد )
١ - قول یا حکم جو دوسرے کے ذریعے سے پہنچایا جائے۔
"آدمی نے جا کر پیام پہنچا دیا اور تھوڑی دیر بعد آ کر کہا چل تجھ کو حاضر ہونے کی اجازت مل گئی۔"      ( ١٩٢٧ء، گل دستۂ عید، ٣٦ )
٢ - خوشی کی خبر۔
 کب پیامِ وصال آتا ہے خواب ہے جو خیال آتا ہے      ( ١٨٣٨ء، ریاض البحر، ٢٢٦ )
٣ - شادی طے کرنے کی بات چیت۔
"ان دونوں کی گفتگو میری شادی کے متعلق ہو جاتی تھی، دونوں کو اس کا صدمہ تھا کہ پیام کہیں سے نہیں آتا۔"      ( ١٩٣٦ء، گردابِ حیات، ٥٣ )
٤ - بلاوا، دعوت، پیش کش۔
"ملازمت کے بہت سے پیام آئے مگر قبول نہیں کی۔"      ( ١٩٢٩ء، تذکرۂ کاملان رام پور، ٤٠١ )
٥ - زبانی سوال، عرض یا درخواست۔
٦ - [ تصوف ]  جذبات حُبّی کو کہتے ہیں جو منجانب حقیقت دلِ سالک پر وارد ہوتے اور سالک کو مست و بیخود کر دیتے ہیں اور اسی طرح قلبِ سالک سے جذبات اٹھتے اور حقیقۃ الحقائق کی طرف جاتے ہیں اور یہ وہ نسبت ہے کہ ملائکہ اس سے بے بہرہ نہیں۔"(مصباح التعرف لارباب التصوف، 68)
  • message
  • errand
  • communication