اسم  مجرد (  مذکر - واحد  ) 
              
                
                  
                    ١ - سوچ، بچار، فکر۔
                  
                  
                      
                      
                        "خدا تعالٰی میں تفکر کرنا معصیت ہے اور کفر۔"     
                        ( ١٩٢٤ء، تذکرۃ الاولیا، ٤٦٧ )
                      
                   
                 
                
                  
                    ٢ - پراگندہ خاطری، پریشانی۔
                  
                  
                      
                      
                         ہے صفی کس کو تفکر میں دماغ فکر و شعر کی بھی مجبوری سے ہم نے خامہ فرسائی تو کیا     
                        ( ١٩٥١ء، صفی لکھنوی، دیوان، ٤ )
                      
                   
                 
                
                  
                    ٣ - شعر کہتے وقت غور و خوض، شاعر کا عالم خیال۔
                  
                  
                      
                      
                         بیٹھا ہے سختور جو گرفتار تفکر زیبا یہ قفس مرغ خوش الحاں کے لیے ہے   
                        ( ١٨٥٤ء، ذوق، دیوان، ٢٠٥ )
                      
                   
                 
                
                  
                    ٤ - علوم و فقہ پر غور و فکر۔
                  
                  
                      
                      
                         تعقل میں اتنی صفائی کہاں تفکر کو ایسی رسائی کہاں   
                        ( ١٩١١ء، کلیات اسماعیل، ١ )
                      
                   
                 
                
                  
                    ٥ - یاد خدا میں محو ہونا۔
                  
                  
                      
                      
                         سینہ گرمی سے تفکر کی ہوا اپنا گرم لو خدا سے جو لگی سوجھ گیا فقرہ گرم   
                        ( ١٨٦٨ء، واسوخت ناظم (شعلۂ جوالہ، ٦٦:١) )
                      
                   
                 
                
                  
                    ٦ - اندیشۂ بے جا۔
                  
                  
                      
                      
                         اس تشتت اور تفکر میں بھلا کوئی اس دنیا میں ہو آسودہ کیا     
                        ( ١٧٧٤ء، مثنویات حسن، ٨٤:١ )