اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - تلخ سے اسم کیفیت
عاشق پسند کیوں نہ کریں زہر چشم یار میکش کو خوشگوار ہے تلخی شراب کی رجوع کریں:
( ١٨٧٢ء، مراۃ الغیب، ٢٥٤ )
٢ - ناگواری، بدمزگی۔
"آپ کو میرے خطوط ہفتہ وار مل رہے ہوں گے اسی لیے پچھلے خط میں جو ذرا شکایت کی تلخی ہے وہ دور ہو گئی ہو گی۔"
( ١٩٢٠ء، برید فرنگ، ٨٤ )
٣ - [ مجازا ] تیزی، چڑچڑاپن۔
"جب تک میٹھا برس ختم ہو مبتلا کے مزاج کی تلخی اضعافاً مذاعفہ بڑھ گئی تھی۔"
( ١٨٨٥ء، محصنات، ١٧ )
٤ - شدت، سختی۔
پوچھ نہ کچھ جو ہجر میں صدمے ہیں جان پر آ آ گئی ہے موت کی تلخی زبان پر
( ١٨٧٠ء، دیوان واسطی، ٧٧ )
٥ - تکلیف، مصیبت۔
"روحانی کمال کا جوہر یہ ہے کہ . آلام کی تلخی کو خندہ جبینی اور کشادہ دلی کے ساتھ گوارہ کرے۔"
( ١٩١٤ء، سیرۃ النبیۖ، ٢٧٧:٢ )
٦ - سرکش، بے حیا اور بدزبان و فتنہ پرداز عورت کے لیے بولتے ہیں۔ (دریائے لطافت، 78)
٧ - سکرات، جیسے تلخئی موت۔ (نوراللغات؛ جامع اللغات)