سختی

( سَخْتی )
{ سَخ + تی }
( فارسی )

تفصیلات


سَخْت  سَخْتی

فارسی زبان سے ماخوذ اسم صفت 'سخت' کے ساتھ 'ی' بطور لاحقۂ کیفیت لگانے سے بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً ١٦٣٥ء سے "سب رس" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
جمع   : سَخْتِیاں [سَخ + تِیاں]
جمع غیر ندائی   : سَخْتِیوں [سَخ + تِیوں (و مجہول)]
١ - کڑاپن، کرختگی، صلابت، ثقاوت، نرمی کی ضد۔
"نائٹروجن اور کاربن دونوں کی موجودگی فولاد میں آب داری . کے دوران سختی پیدا کردیتی ہے۔"      ( ١٩٧٣ء، فولاد سازی، ١٧٨ )
٢ - دشواری، تکلیف، دکھ، مصیبت۔
 جیل ہے یا یہ کوئی بزم ادب ہے احمق تجھ پہ کچھ بھی اثر سختی زنداں نہ ہوا    ( ١٩٤٢ء، سنگ و خشت، ٢٩ )
٣ - عسرت، تنگی، افلاس۔
"دوست کو سختی کے وقت آزمایش کر کیونکہ دولت و ثروت میں ہر کوئی دوست بنتا ہے۔"    ( ١٨٤٥ء، احوال الانبیا، ٦١٧:١ )
٤ - تندی، تیزی، درشتی۔
"ہمارے والد کے مزاج میں بڑی سختی ہے۔"      ( ١٩٠٢ء، طلسم نوخیز جمشیدی، ١٤:٢ )
٥ - زیادتی، ظلم، سخت گیری۔
"ماماؤں کے ساتھ جہاں سختی گناہ ہے، وہاں نرمی بھی غلطی سے کم نہیں۔"      ( ١٩١٠ء، لڑکیوں کی انشاء، ٤٥ )
٦ - شدت، انتہائی تکلیف دہ ہونے کی کیفیت یا حالت۔
"سزا کی سختی نے عزم بلند پایہ کی توجہ اس طرف منعطف کی کہ چوری ہے کیا چیز?"      ( ١٩٨٤ء، مقاصد و مسائل پاکستان، ١٤٧ )
٧ - تاکید، زور۔
"ان کی سختی کے ساتھ تربیت کی جاتی تھی۔"      ( ١٩٦٧ء، اردو دائرہ معارف اسلامیہ، ٦٢٤:٣ )
٨ - مضبوطی، استحکام، پائداری؛ بے رحمی، سنگ دلی، بدمزاجی، اکھڑپن، تنبیہ، ڈانٹ، بداقبالی، ادبار۔ (فرہنگ آصفیہ؛ نوراللغات)
  • Hardness
  • stiffness
  • rigidity
  • firmness;  tightness;  stinginess;  obduracy;  obstinacy;  asperity;  sternners
  • austereness;  violence
  • atrocity;  cruelty;  grievance
  • hardship;  adversity
  • indigence
  • distress
  • difficulty
  • evil
  • calamity