تنقید

( تَنْقِید )
{ تَن + قِید }
( عربی )

تفصیلات


نقد  نَقْد  تَنْقِید

عربی زبان سے اسم مشتق ہے۔ ثلاثی مزید فیہ کے باب تفعیل سے مصدر ہے اور اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٩٢٣ء کو "سیرۃ النبیۖ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
١ - ایسی رائے جو برے بھلے یا صحیح اور غلط کی تمیز کرا دے، پرکھ، چھان بین، کھوٹا کھرا جانچنا۔
"تمھارا فرض صرف اس قدر ہے کہ روایت کی اچھی طرح تنقید کر لو۔"    ( ١٩٢٣ء، سیرۃ النبیۖ، ١٣١:٣ )
٢ - وہ تحریر جس میں کسی فن پارے کے حسن و قبح پر فنی اصول و ضوابط کی روشنی میں اظہار کیا گیا ہو۔
"ڈاکٹر محمد اقبال کی غزل پر جو تنقید شائع ہوئی ہے اس میں انصاف اور اعتدال سے کام لیا گیا۔"    ( ١٩٥٠ء، چھان بین، ٢٠ )
٣ - نکتہ چینی، اعتراض۔
"میرزا غالب نے . سخت لہجہ میں تنقید کی ہے، مجھ سے زیادہ غالب پر سخت کلامی یا بداخلاقی کا الزام کھپ سکتا ہے۔"      ( ١٩٣٤ء، غالب شکن، ١٩ )