التفات

( اِلْتِفات )
{ اِل + تِفات }
( عربی )

تفصیلات


لفت  اِلْتِفات

عربی زبان سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں بطور اسم ہی استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٦٧٨ء کو "کلیات غواصی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر، مؤنث - واحد )
١ - توجہ، کسی خاص شخص یا چیز کی جانب کا جھکاؤ۔
"ہم نے صوبہ دار دربان سے کہا کہ وہ کسی فرمان یا پیام پر التفات نہ کرے۔"      ( ١٩١٩ء، غدر دہلی کے افسانے، ٤٦:٤ )
٢ - مہربانی، عنایت، محبت، شفقت۔
 کیوں ڈروں امتحان محشر سے مجھ پہ جب التفات تیری ہے      ( ١٩١١ء، نذر خدا، ١٦٦ )
٣ - [ بدیع ]  ایک سلسلۂ کلام میں کسی ایک شخص خصوصاً ممدوح کو اول غائب فرض کرنا پھر مخاطب قرار دینے کا عمل، مرجع کے لیے درپے دو قسم کی ضمائر استعمال کرنا۔
"اول ممدوح کو غائب فرض کرکے اوصاف بیان کیے پھر غیبت سے خطاب کی طرف التفات کی طرف التفات کیا یعنی حاضر فرض کرکے تعریف شروع کی۔"      ( ١٩٢٦ء، بحرالفضاحت، ٢٨٨ )
  • regard
  • attention
  • countenance;  respect
  • consideration
  • courtesy
  • civility
  • kindness;  an apostrophe