رضا

( رَضا )
{ رَضا + رَضَا }
( عربی )

تفصیلات


رضی  رَضا

عربی میں ثلاثی مجرد کے باب سے اسم مشتق ہے۔ اردو میں اصل معنی اور ساخت کے ساتھ داخل ہوا۔ سب سے پہلے ١٦٠٩ء میں قطب مشتری میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - خوشی، رغبت؛ (دل کی) خوشنودی، مرضی۔
"میں نے جواب دیا کہ وہ تو حالات پر منحصر ہو گا اور یہاں رہنے والے باشندوں کی آزادانہ رائے اور رضا پر۔"      ( ١٩٨٢ء، آتشِ چنار، ٣٩٥ )
٢ - مصلحت، مشیّت (خدا تعالٰی کے لیے مختص)۔
"جب بندہ اللہ کی رضا کے لیے خود کو وقف کر دیتا ہے تو پھر اللہ بھی اس کی رضا کو اپنی رضا قرار دیتا ہے۔"      ( ١٩٨٧ء، قومی زبان، کراچی، ١٩ )
٣ - وہ عمل جس سے وہ خوشنود یا رضامند، غیر کی پسندیدگی کا کام (بیشتر خدائے تعالٰی کے لیے مستعمل)۔
 عمر گزری تری رضاؤں میں کٹ گئی زندگی وفاؤں میں      ( ١٩١١ء، نذرِ خدا، ٨٣ )
٤ - خدا تعالٰی جس حال میں رکھے اس پر راضی اور خوش رہنے کا جذبہ، مشیت باری کے سامنے بخوشی سر جھکا دینے کی صورت میں (اکثر تسلیم کے ساتھ)۔
"رسول اکرمۖ بشر ہیں وہ غضب اور رضا دونوں میں کلام فرماتے ہیں۔"      ( ١٩٧٦ء، مقالاتِ کاظمی، ٢١٧ )
٥ - اجازت، رضامندی۔
 براضی رضا اپنی ماتا سے چاہی ہوئے شادماں جانب برج راہی      ( ١٩٠٩ء، مظہرالمعرفت، ٦٩ )
٦ - چھٹی، رخصت (جو استحقاق کی بنا پر لی جائے)۔
"جب وہ رضا پر وطن آئے تو اس وقت ایک بڑی قسم کا آم وہاں سے اپنے ساتھ لیتے آئے۔"      ( ١٩٣٦٧، خطباتِ مشران، ٣٥٩ )
٧ - علیحدگی یا برطرفی کا نوٹس۔
"بڑا پریس بند کر دو، زیادہ عملہ کو رضا دے دو۔"      ( ١٩١٦ء، خطوط حسن نظامی، ١٠١:١ )
٨ - [ مجازا ]  خوش، راضی، خوشنود۔
 اِتّقا سے، نیک خوئی سے، ادب سے، خُلق سے خلق اور خالق کو رکھتے ہیں رضا اہلِ فلاح      ( ١٨٧٣ء، مناجاتِ ہندی، ٣٢ )
  • the state of being please
  • content;  good pleasure
  • will;  content;  approval
  • consent
  • assent;  permission
  • leave
  • furlough