پھٹکار

( پِھٹْکار )
{ پِھٹ + کار }
( ہندی )

تفصیلات


پھٹکار  پِھٹْکار

ہندی سے اردو میں اصل ساخت اور مفہوم کے ساتھ داخل ہوا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ اور سب سے پہلے ١٨٣٢ء کو "دیوان رند" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - بے رونقی، اجاڑپن۔
"چہرے کی پھٹکار مٹانے کے لیے میک اپ کی مقدار اتنی بڑھا دی کہ میں اپنی بالکنی سے اس کی منصوعی پلکیں گن سکتی"      ( ١٩٦٢ء، معصومہ، ٢٥٠ )
٢ - [ مجازا ]  ذلت، خواری، رسوائی۔
"ہمیشہ ہمیشہ اسی پھٹکار میں رہیں گے"      ( ١٨٩٥ء، ترجمہ قرآن مجید، نذیر احمد، ٣٧ )
٣ - نغرین، لعنٹ، ملامت۔
"جہالت خدا کی پھٹکار ہے"    ( ١٩٠٦ء، حکمت عملی، ١٤ )
٤ - بد دعا۔
 کسی کی پھٹکار لگ گئی ہے مجھے بھاگتے ہیں وہ میری صحبت سے    ( ١٨٦٦ء، فیض، دیوان، ٣٥٦ )
٥ - خوشبو رنگ یا کسی چیز کی ہلکی سی ملاوٹ، آمیزش، چاشنی۔
"کتری ہوئی مرچوں کی ہوائی اور کھٹے کی پھٹکار"    ( ١٩٤٣ء، دلی کی چند عجیب ہستیاں، ١٢١ )
٦ - پرواز تخیل میں کسی بات کا ہلکا سا جونکا۔ (شبد ساگر)
  • sound (of whip)
  • sound of beating (person
  • laundry
  • etc)