زنگ

( زَنْگ )
{ زَنْگ (ن غنہ) }
( فارسی )

تفصیلات


اصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٤٦٤ء کو حسن شوقی کے "دیوان" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - وہ میل یا پھپھوندی جو لوہے کی چیزوں پر نمناک ہوا سے جم جاتا ہے اور وہاں سے لوہا کھا جاتا ہے، مورچہ۔
"آزاد کی تخلیقی زندگی کو توجنون زنگ بنکر کھا گیا"      ( ١٩٨٣ء، تخلیق اور لاشعوری محرکات، ٢٧ )
٢ - آئینے یا شیشے کا "گدلا پن" یا دھندلا پن۔
 زنگ خط کا دل سے جانا ہے محال مورچہ اس آئینہ کو کھا گیا    ( ١٨٧٨ء، سخن بے مثال، ٦ )
٣ - سیاہی۔
 نشکام سے لیکن رہے یہ کام کی صورت آئینۂ دل کو نہ لگے زنگ کدورت    ( ١٩٢٥ء، مطلع انوار، ١٦٠ )
٤ - گھنٹہ، جرس، گھنٹی۔
 کہیں تھا (تھی) ناقۂ لیلٰی کے زنگ کی آواز کہیں تھا (تھی) آہ دل قیس کی صدائے حزیں      ( ١٩٠٣ء، نظم نگاریں، ٢ )
٥ - افریقہ کے ایک ملک کا نام، نجبار، حبش۔
 جمگھٹا ہے اس میں ترک و فرس و روم و زنگ کا یعنی گلدستہ ہے اک گلہائے رنگا رنگ کا      ( ١٩٠٦ء، مخزن، اکتوبر، ٢ )
  • (lit.)
  • "blackness
  • darkness"
  • ;  rust;  canker;  Ethiopia