زیب

( زیب )
{ زیب (ی مجہول) }
( فارسی )

تفصیلات


اصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اصل معنی اور اصل حالت میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٦١١ء کو قلی قطب شاہ کے کلیات میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مذکر - واحد )
١ - خوبصورتی، حسن، زیبائی۔
 آر سی لے کے ذرا تو بھی تو دیکھ اپنی زیب لب کی مسی پہ کھلی پان کی لالی کیا خوب      ( ١٨٢٤ء، مصحفی، دیوان (انتخاب رامپور)، ٦٩ )
٢ - زینت، رونق۔
 زیب تیرے خال سے رخسار دریا کو رہے تیری شمعوں سے تسلی بحر پیما کو رہے      ( ١٩٠٥ء،بانگ درا، ١٤٢ )
٣ - آرائش، سجاوٹ، بناؤ سنگھار۔
 زیب کی حاجت حسینوں کو نہیں ہوتی نسیم پیرہن بے بخیہ ہے خورشید کی تنویر کا      ( ١٨٦٥ء، نسیم دہلوی، دیوان، ٥١ )
٤ - مرکبات میں بطور جزو دوم مستعمل بمعنی زینت دینے والا، رونق بڑھانے والا۔
جامہ زیب، تن زیب، اورنگ زیب۔      ( ١٩٢١ء، وضع اصطلاحات، ٩٦ )
١ - زیب تن کرنا
پہننا، جسم پر سجانا۔"اس روز اس نے گلابی رنگ کی ساڑھی زیب تن کر رکھی تھی،"      ( ١٩٨٣ء، ساتواں چراغ، ٦٤ )
  • ornament
  • elegance
  • grace
  • beauty