رقیب

( رَقِیب )
{ رَقِیب }
( عربی )

تفصیلات


رقب  رَقِیب

عربی میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم فاعل ہے۔ اردو میں اصل معنی و ساخت کے ساتھ داخل ہوا۔ سب سے پہلے ١٦١١ء میں "قلی قطب شاہ" کے کلیات میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جنسِ مخالف   : رَقِیبَہ [رَقی + بَہ]
جمع ندائی   : رَقِیبو [رَقی + بو (و مجہول)]
جمع غیر ندائی   : رَقِیبوں [رَقی + بوں (و مجہول)]
١ - ہم پیشہ جن میں باہم چشمک اور چونپ ہو۔ ہم چشم۔
" میں نے کبھی اپنے آپ کو شاعر نہیں سمجھا اس واسطے میرا کوئی رقیب نہیں"      ( ١٩٣٥ء، مکاتیبِ اقبال،١، ١٩٥ )
٢ - ایک معشوق کے عاشقوں میں سے کوئی ایک۔
"رقیب ہماری شاعری کا مطعون ترین کردار ہے"      ( ١٩٤٦ء، فیضانِ فیض، ٢١ )
٣ - دربان، محافظ، نگہبان، پاسبان، رکھولا، نگران۔
 یاعظیم یاحلیم یارقیب یامجیب یاحمید یامعید یاشہید یاحسیب      ( ١٩٨٤ء، الحمد، ٨٥ )
٤ - دشمنی رکھنے والا، مخالف، دشمن۔
"اب تو انگریز بھی گئے اور ان کے رقیب بھی وہاں (ہندوستان) سے . چالے آئے"      ( ١٩٨٤ء، مقاصدو مسائل پاکستان، ٦٧ )
٥ - [ تصوف ]  نفس امّارہ اور حواس خمسہ ظاہری و باطنی کو کہتے ہیں۔ (ماخوذ: مصباح التعرف، 129)۔۔
٦ - ایک تیر کا وصفی نام۔
"پانسوں کی صورت یہ تھی کہ دس تیر مقرر کرلیے تھے، جن کے نام یہ ہیں، قد، توام، رقیب . ان میں ہر تیر کے مختلف حصے معین کر لیے تھے"      ( ١٩٣٢ء، سیرۃ النبیۖ، ٢٨٤:٤ )
  • ہَمْسَر
  • حَرِیْف
  • مُعَانِد
  • مُحَافِظ
  • مُخالِفْ
  • one who watches;  a watcher
  • waiter (in expectation of a person or thing);  guardian
  • keeper;  rival
  • competitor