دشمن

( دُشْمَن )
{ دُش + مَن }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی سے اسم جامد ہے۔ اوستائی میں 'دش مُنَہ' استعمال ہوتا تھا اس سے ماخوذ فارسی میں آیا اور فارسی سے اردو میں سب سے ١٥٦٤ء کو حسن شوقی کے دیوان میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ
جمع غیر ندائی   : دُشْمَنوں [دُش + منوں (و مجہول)]
١ - [ عورات ]  اس عزیز یا محبوب کی ذات جو لفظاً اس کا مضاف الیہ ہے۔ عورتوں کے روز مرہ میں بدشگونی سے بچنے کے لیے مستعمل۔
"اے ہے رات بھر میں میری بچی کا کیا حال ہو گیا دشمنوں کا رنگ زرد پڑ گیا۔"      ( ١٩٠٠ء، خورشید بہو، ١٤ )
٢ - [ عورات ]  دوستی کا رشتہ جو عورتیں آپس میں بدلتی ہیں جیسے جان من، زناخی، دل ملا وغیرہ۔ (فرہنگ آصفیہ؛ نوراللغات)
صفت ذاتی
جمع غیر ندائی   : دُشْمَنوں [دُش + مَنوں (واؤ مجہول)]
١ - جو شخص کسی کی جان مال آبرو وغیرہ کے نقصان کا خواہاں ہو، مخالف، بدخواہ۔
"میں تمہارا رقیب نہیں، تمہارا دشمن تو کوئی اور ہے۔"    ( ١٩٧٧ء، ابراہیم جلیس، الٹی قبر، ١٨٧ )
٢ - مد مقابل، حریف، رقیب۔
 دشمن کو نہ کیوں شرب دوام آوے میسر اپنی ہے اودھر ہی نگاہ یار ہمیشہ    ( ١٨١٠ء، میر، کلیات، ٢٦٣ )
٣ - نقصان پہنچانے والا۔
"کتابوں کا سب سے پہلا دشمن خود انسان ہے۔"    ( ١٩٦١ء، انتظام کتب خانہ، ٥٢ )
٤ - [ عورات ]  کسی عزیز یا محبوب کے متعلق کسی مکروہ یا بری بات کی تردید کے موقع پر جیسے: بیمار ہوں آپ کے دشمن، چوری کریں ان کے دشمن، بیحیائی کریں میرے دشمن، یعنی آپ 'ان' میرے تینوں علی الترتیب، بیمار ہونے چوری کرنے اور بے حیائی کرنے سے مبرا ہیں۔
 کیوں یہ کس واسطے ہے رنج و محن جان دیں اپنی آپ کے دشمن      ( ١٨٨٠ء، قلق لکھنوی (نوراللغات) )