رقعہ

( رُقْعَہ )
{ رُق + عَہ }
( عربی )

تفصیلات


رقع  رُقْعَہ

عربی میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں اصل مفہوم اور ساخت کے ساتھ داخل ہوا۔ سب سے پہلے ١٦٣٥ء میں "سب رس" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : رُقْعے [رُق + عے]
جمع   : رُقْعے [رُق + عے]
جمع استثنائی   : رُقعات [رُق + عات]
جمع غیر ندائی   : رُقُعوں [رُق + عوں (و مجہول)]
١ - خط، چٹھی، پرچہ، مکتوب۔
"اُن کے رقعے سب سے زیادہ مقبول ہوئے"      ( ١٩٣٢ء، چند ہم عصر، ٢٠٨ )
٢ - پرچہ، مختصر عبارت کی پرچی، پرزہ۔
"متعدد خطوں اور رقعوں میں املا اور علامات تحریر کے استعمال کے بارے میں ہدایات دی ہیں"      ( ١٩٨٧ء، سہ ماہی اردو، جنوری، مارچ، ١١٥ )
٣ - عقد کے پیام کا خط (جو عموماً سرخ کاغذ پر ہوتا ہے)، اور اس میں خاندان و نسب وغیرہ کا حال تحریر ہوتا ہے۔
"خاندانوں کے شادی بیاہ کے رقعے شمس العلما مولوی نذیر احمد لکھا کرتے تھے"      ( ١٩٣٤ء، بزمِ رفتگاں، ٤٤ )
٤ - کسی تقریب کا یا شادی کا دعوت نامہ۔
"تاریخ مقرر کیجئیے، ڈھول پٹوائیے، فہرستیں بنوائیے، رقعے چھپوائیے"      ( ١٩٨٥ء، روشنی، ٣٧٨ )
٥ - پیوند، تھگلی۔
 چک جائیں دیکھ مشفق رنگ ریشم سو بیج رقعہ پڑیا ہے کھن پہ پر کر، منج نہال ساقی      ( ١٦١١ء، کلیات قلی قطب شاہ، ١: ١٠١ )
٦ - روپے کے لین دین کی یاداشت، ہنڈی، پرو نوٹ وی پی۔
"کہا کہ دس روپیہ قرض دے دیجئیے. انہوں نے ترس کھا کر دے دیا. کچھ دنوں بعد کہیں ملاقات ہو گئی تو تقاضا کیا تو کہتے ہیں کوئی رقعہ ہے"      ( ١٩٦٢ء، تجدیدِ معاشیات، ٢٢٧ )
٧ - ملاقاتی کارڈ، تعارفی پرچہ۔
"کچھ دیر انتظار کیا آخر اپنا رقعہ رکھ کر واپس آگئے"      ( ١٩٠٧ء، سفر نامۂ ہندوستان، ٩ )
٨ - سفارشی خط، تعریفی نامہ، کاغذ۔
"کسی نامی مرثیہ خواں کا شاگرد ہو جائے اور ان سے کوئی رقعہ لے کر باہر چلا جائے"      ( ١٩٠٠ء، شریف زادہ، ٨١ )
٩ - دعوت نامہ، بلاوا۔
 رقعہ آیا ہے بلایا ہے ہمیں کی ہے خبر بزمِ شادی میں ضرور اپنی ہے شرکت شب بھر      ( ١٩٦٧ء، شعلہ بحوالہ، واسوخت، امیر مینائی، ٨٨:١ )
  • A bit
  • piece
  • a scrap;  a note
  • letter