جاگیر

( جاگِیر )
{ جا + گِیْر }
( فارسی )

تفصیلات


اصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے اردو میں فارسی سے فاخوذ ہے اور اصلی حالت اور معنی میں ہی بطور اسم اور گا ہے بطور اسم صفت مستعمل ہے۔ ١٦٨١ء میں "جنگ نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( مؤنث - واحد )
جمع   : جاگِیْریں [جا + گی + ریں (یائے مجہول)]
جمع غیر ندائی   : جاگِیْروں [جا + گی روں (واؤ مجہول)]
١ - متمکن، جگہ لینے والا، ٹھہرا ہوا۔
 اسمائے الٰیہ کی تاثیر ہے حکم خدا سے اس میں جاگیر      ( ١٨٧٤ء، جامع المظاہر، ٤٠ )
اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : جاگِیرْیں [جا + گی + ریں (یائے مجہول)]
جمع غیر ندائی   : جاگِیروں [جا + گی + روں (واؤ مجہول)]
١ - قطعۂ زمین یا گانو جو بادشاہ یا حکومت کی طرف سے کسی کو اس کی خدمت کے عوض میں دیا جائے۔
"اقنادہ زمینیں بھی صحابہ کو بطور جاگیر عطا فرما دیں"      ( ١٩١٤ء، سیرۃ النبیۖ، ٨٢:٢ )
٢ - ملکیت، مملوکہ شے۔
"جو اک بار ان سے بندھ گیا وہ پھر گویا اس کی جاگیر تھی"      ( ١٩٣٥ء، چند، ہمعصر، ٣٨٢ )
٣ - روزینہ، وظیفہ جو تعلیم کے واسطے مقرر ہو۔ (مہذب اللغات، نوراللغات)
٤ - وہ شے جو قبضے میں ہو یا جس پر قابو اور اختیار ہو۔
 ہماری ہی ہر سعی جاگیر تھی ہماری ہی تدبیر تقدیر تھی      ( ١٩٣٢ء، بے نظیر، کلام بے نظیر، ٣٣٤ )